وں جوں برصغیر کی سیاست میں جنگی جنون در آیا ہے، توں توں کلچر کے مختلف پلیٹ فارم بھی جنگجو انہ رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

وں جوں برصغیر کی سیاست میں جنگی جنون در آیا ہے، توں توں کلچر کے مختلف پلیٹ فارم بھی جنگجو انہ رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
وجہ کچھ بھی ہو‘ ایسے اشتہار عمومی طور پر ریاستی بیانیے کے عکاس ہیں۔ ان کے ذریعے عوام کو اچھی طرح ذہن نشین کروایاجاتا ہے کہ عوام ریاست کے لئے ہیں نہ کہ ریاست عوام کے لئے۔
ہمارے ترقی پسند اساتذہ بھی کہیں کہیں ارتقائی نظریات کی مخالفت کرتے بھی پائے گئے۔ ان کے خیال میں ارتقائی نظریات سامراج کو مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
دواساز کمپنیوں کا مقصد مرض کا علاج نہیں بلکہ منافع ہے۔ ایک دواسازکمپنی کیلئے مرض میں مبتلا انسان کسی طور ایک ’’مریض ‘‘نہیں ہوتا بلکہ ایک ’’گاہک‘‘ ہوتاہے۔
’’گیجٹس‘‘ سے لاحق ہونے والی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں سے ہٹ کر بھی بات کی جائے تو موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہوئی زندگیاں، روح کی غربت کا اظہار ہیں۔
تمام انسان دشمن قوانین اسی لائق ہوتے ہیں کہ ان پر عمل نہ کیا جائے۔
اچھی خبر البتہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان نے ہمیشہ برائی کی مزاحمت کی ہے اور بطور انسان ہمارے اندر خود غرضی سے زیادہ ایثار اور اشتراک کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
عمران خان اُن ہزاروں پاکستانی امریکیوں کی تجسیم ہے جو اس کے جلسے میں آئے۔ دونوں کو ایک دوسرے میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔
جو سماجی انحطاط کے اسباب پہلے تھے، سو وہ آج بھی ہیں۔ جن زنجیروں نے ہمیں پہلے باندھ رکھا تھا، وہ اب بھی ہمیں جکڑے ہوئے ہیں۔
بیگانگی اور تنہائی کا مسئلہ بنیادی طور پر انفرادی یا شخصی نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی معاشرتی مسئلہ ہے جو اس نظام زر اور اس کے بحران سے پورے سماج کو لاحق ہے۔