اداریہ

[molongui_author_box]

ریاست ہی ٹی ایل پی ہے اور پورا ملک جڑانوالہ

اس جنونیت کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ اس معاشرے سے معاشی اور سیاسی بربادیوں کا خاتمہ کیا جائے اور اس ریاست کے ڈھانچے کو از سرنو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس نظام کی بربادیوں کے خاتمے کیلئے سنجیدہ سیاسی متبادل کی تعمیر کی جائے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، لاقانونیت اور جنونیت کے خلاف سیاسی طور پر محترک کیا جائے اور اس نظام کے خاتمے کیلئے فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ جدوجہد ایک ایسے معاشرے کیلئے جہاں انسان کو حقیقی معنوں میں انسانیت کی معراج سے سرفراز کیا جا سکے۔

پاکستان سیلاب سے نہیں، مسلسل ریاستی نااہلیوں کی وجہ سے ڈوبا

سیلابی پانی کے زرعی زمینوں سے اترنے کے حوالے سے دو ماہ کا وقت لگنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں خوراک کا اہم ذریعہ سمجھی جانے والی گندم کی فصل کی سالانہ کاشت متاثر ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گندم کی فصل کاشت کرنے کا سیزن آئندہ ماہ شروع ہو رہا ہے، جبکہ زرعی زمینیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ سیلابی پانی اترنے کے بعد بھی زمینوں کو قابل کاشت ہونے تک تین سے چار ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں خوراک درآمد کرنا پڑے گی، جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ سیلاب سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ کچھ اشیا کی قیمتیں میں 500 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

آج ’جدوجہد‘ کی تیسری سالگرہ ہے

ہماری اگلی کوشش ہو گی کہ نہ صرف کل وقت عملے میں اضافہ ہو سکے بلکہ ’جدوجہد‘ کی پہنچ میں اضافہ ہو۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے ’جدوجہد‘ کی معاشی حالت کو بہت بہتر بنانا ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے: انقلابی سیاست ہو یا صحافت، دونوں کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس وقت بچتا ہی نہیں کہ وہ دانشورانہ اور انقلابی سیاست میں حصہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل وقتی کامریڈز کا انتظام کرنا دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں اور ٹریڈ یونینز کا بنیادی چیلنج رہا ہے۔ اسی طرح، آن لائن اخبار ہونے کی وجہ سے اگر ’جدوجہد‘ کو اپنی آؤٹ ریچ میں اضافہ کرنا ہے تو بھی فیس بک اور ٹوئٹر کو بھاری فیس ادا کرنا ہو گی۔ امید ہے اپنے حامیوں اور قارئین کی مدد سے آنے والے دنوں میں یہ مقاصد بھی حاصل کر سکیں گے۔ ہمارا ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے علاوہ فیکٹریوں اور دفاتر میں پہنچیں اور تعارفی سیمینارز کی شکل میں ’جدوجہد‘ کو متعارف کرائیں۔ صرف معیاری اخبار نکالنا کافی نہیں۔ اسے ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ہی اصل کامیابی ہو گی۔

لوگو! طالبان خان کی معاشی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلو

اس وقت ملک میں اگر کوئی حقیقی سیاست ہے تو وہ عام لوگ کر رہے ہیں: جب عام انسان روٹی کی قیمت پر بات کرنے لگے تو سمجھیں میدانِ سیاست میں آگ لگی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سیاست کو عملی احتجاج کی شکل دی جائے۔

قاتلوں کو مذاکرات کی میز پر نہیں، کیفر کردار کو پہنچائے

مذکورہ مذاکرات بارے پارلیمان کو بریفنگ دیتے ہوئے فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی ہو یا طالبان، یہ ہمارے ہی بچے ہیں۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست جوابی طور پر پوچھ رہے ہیں کہ پی ٹی ایم کے پر امن کارکنوں اور بلوچستان کی گوریلا قوتوں کے بارے میں یہ رویہ کیوں اختیار نہیں کیا جا رہا۔ جن طالبان نے پاکستانی سپاہیوں کے سر قلم کر کے ان سے فٹ بال کھیلا اور سکول کے بچوں پر گولیاں برسائیں، ان سے تو مذاکرات جائز ہیں مگر ایک پشتو تقریر جس کا ایک سال سے اردو ترجمہ نہیں کرایا جا سکا، کی وجہ سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر پابند سلاسل ہیں۔ یہ دوہرے معیار سات پردے ڈال کر بھی چھپانا ممکن نہیں۔ نتائج کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔

ناظم الدین جوکھیو: پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو

اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے حکمران طبقات کوئی بھی اقدام کرنے میں سنجیدہ اس لئے نہیں ہیں کہ یہ قبائلی، سرداری اور وڈیرہ شاہی ڈھانچہ حکمران طبقات کے اس بحران زدہ نظام کے تحت حکمرانی کو جاری رکھنے اور اس نظام کو برقرار رکھنے کیلئے ایک اہم ٹول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس ملک میں سرمایہ دارانہ قومی جمہوری انقلاب کے تقاضے پورے کرنے کیلئے بھی محنت کش طبقے کو اپنے کندھے ہی فراہم کرنا ہونگے۔

بیس سال پہلے: آج کے دن

افغانستان میں سامراجی انخلا کے بعد مسلط ہونے والی وحشت سے محنت کشوں اور خواتین کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے اور وہ ایک صدمے کی کیفیت میں موجود ہیں۔ تاہم اس گہرے سکوت میں خواتین اور نوجوانوں کے احتجاجی مظاہروں نے کچھ ارتعاش پیدا کی ہے، آنے والے دنوں میں ان واقعات اور احتجاج کی شدت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ماضی کی طرح اب صرف طاقت اور بندوق کے زور پر افغان محنت کشوں اور خواتین کو لمبے عرصے تک مطیع رکھنا ممکن نہیں رہنے والا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے احتجاج اجتماعی طاقت کے احساس کو بھی پیدا کر رہے ہیں، طالبان کے اقتدار اور معاشی، سیاسی و سماجی مسائل کے حل میں ناکامی سمیت امن و امان کے قیام میں ناکامی ان احتجاجوں کو مزید توانائی فراہم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

’یہ گرفتاری شہزاد اکبر کے کہنے پر ہوئی‘

اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ اختلاف رائے اور مباحثہ معاشرے کو مہذب بنانے، ترقی دینے اور مسائل حل کرنے کی جانب پہلا بنیادی قدم ہے۔
اظہار رائے کے حق کے لئے قربانیاں دینے والے صحافی پاکستانی معاشرے کے ہیرو ہیں۔ ’روزنامہ جدوجہد‘ اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے۔

خاشہ زوان: افغانستان میں اتنا غصہ ہے کہ طالبان بھی تین دفعہ بیان بدل چکے ہیں

خاشہ زوان کے قتل نے ایک بارپھر عیاں کیا ہے کہ بیس سالہ سامراجی تسلط اور افغان بربریت کے عرصہ میں انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایساکوئی اقدام سامراجی و طالبان ایجنڈے میں شامل تھا۔ افغانستان کے دکھوں کا مداوا خود افغان عوام کی اکثریت ہی اپنے مقدر اور تاریخ اپنے ہاتھ میں لیکر کر سکتے ہیں۔ اس خطے کے محکوم و مظلوم عوام کے دکھوں اور تکالیف سے نجات سرمایہ دارانہ حاکمیت کے ہر برج، ہر مینارے کو توڑنے اور عوامی شراکت داری پر مبنی وسائل و اختیارات پر اجارے کی صورت ہی ممکن ہے۔

کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

عثمان کاکڑ سمیت اس ملک کے محنت کشوں، نوجوانوں اور محکوم قومیتوں کی نجات اور حقیقی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طبعی یا سیاسی موت کا انتقام پھر اس نظام کے خلاف ان کی جلائی ہوئی شمع کو جلائے رکھنے اور جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے ان کے مشن کی تکمیل، اس خطے میں ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنے پر ہی منحصرہے جہاں کوئی کسی کا کسی نوعیت کا استحصال نہ کر سکے۔