تاریخ

[molongui_author_box]

ارنسٹ مینڈل: عالمی ٹراٹسکی اسٹ تحریک کا میر کارواں

1950ء کی دہائی کے اواخر سے وہ چوتھی انٹرنیشنل اور بلجئیم میں ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے اہم رہنما اور نظریہ دان بن کر ابھرے۔ اسی دوران وہ دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ”مارکسٹ اکنامک تھیوری“ پر بھی کام کرتے رہے۔ وہ ایک شاندار مقرر تھے۔ کئی یورپی زبانیں بولتے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں، بالخصوص 1968ء کے بعد، وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت بن کر ابھرے۔ بائیں بازو کے وہ لوگ جو ان کی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی ارنسٹ مینڈل کے اثر و رسوخ اور بلا کی ذہانت کا اعتراف کرتے تھے۔ مغربی جرمنی کی ایس ڈی ایس (سوشلسٹ جرمن سٹوڈنٹس یونین)، بالخصوص اس کے رہنما مرحوم رودی ڈچک (Rudi Dutschke) ارنسٹ مینڈل سے بہت متاثر تھے۔

صحافت کا مارکس وادی سپاہی رخصت ہوا

وہ ایک سچے مارکسسٹ بھی تھے اور اپنی نوکری کو بچاتے ہوئے اپنے آدرش کے ساتھ جڑے رہے۔ شائد یہی ایک المیہ تھا جو ان کی جان پر بھاری پڑا۔ جیو والے ٹھہرے ابن الوقت کاروباری لوگ اور فاروقی صاحب کام کرنا چاہتے تھے اور معیاری صحافت کرنا چاہتے تھے، جو کہ انہوں نے کی بھی لیکن پھر بھی اکثر اس بات کا رونا رویا کرتے تھے کہ کیسے ہمارے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔

محنت کش یوم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر کیوں مناتے ہیں؟

آج مزدوروں کے اوقات کار سرکاری طور پر تو 8 گھنٹے ہیں مگر ایک باعزت زندگی بسر کرنے کے لئے دو دو تین تین کام کرنے پڑتے ہیں یا 12/14 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے تب جا کر گزارا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مزدور طبقات تو آج کرونا کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ساکا ننکانہ کا معاشی اور سماجی پہلو

بھارت میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم کے ایک اور اقدام نے عالمی برادری کی توجہ اس وقت مبذول کرائی جب اس نے ساکا ننکانہ (یا ننکانہ قتل عام) کی سوویں سالگرہ (جو کہ 20 فروری 2021ء کو تھی) میں شرکت کے لیے 700 سکھوں کو ننکانہ صاحب (پاکستان) جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

ایک سیاسی رہنما جس کی زندگی عاجزی اور انکساری سے عبارت تھی

طالب علم رہنما کی حیثیت سے وہ 1955ء میں ون یونٹ کے خلاف احتجاج میں شامل رہے۔ فوجی آمر جنرل ایوب خان کے دور میں انہوں نے بلوچ طلبہ کے وظائف اور ان کے حقوق کی جنگ جاری رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے بالوں کی سیاہی تو سفیدی میں بدل گئی لیکن اپنی قوم کے حقو ق کی جدوجہد کا جذبہ آخری سانس تک اسی طرح جوان رہا۔

نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام

آپ کو انتہائی دھیمی رفتار سے آگے بڑھنا ہو گا جس کے لئے ہمت اور مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ مشکلات اور مصیبتیں آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ مصائب اور کامیابیوں کے اس امتحان سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے، اور آپ کی ذاتی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ثابت ہو گی۔

’آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہئے‘

”انقلاب کیلئے جذباتیت یا خون خرابے کی بجائے مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد، پیش قدمی اور قربانی چاہیے۔ سب سے پہلے ذاتی تسکین کے خوابوں سے چھٹکارا پانا ہو گا… مشکلات اور مصائب آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ ان امتحانات سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے اورآپ کی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ہو گی“۔