فن و ثقافت

[molongui_author_box]

یوگا

آپ بھی یوگ کے آسن سیکھئے۔ اس پر عمل کیجئے۔ پورے ایک سو بیس آسنوں کا حال میری کتاب’یوگ! کیوں اور کیسے‘ میں درج ہے۔ قیمت پانچ روپے۔ ملنے کا پتہ۔ آوارہ یوگی۔ پوسٹ بکس نمبر420شکار پور۔ سندھ۔

وٹامن

چنانچہ اب میں اپنے مہمانوں کی، جو اکثر وٹامن کے عاشق ہوتے ہیں، بڑی آؤ بھگت کرتا ہوں۔ سبزی ترکاری کے علاوہ انہیں پھل بھی کھلاتا ہوں۔ خود سیب کا گودا کھاتا ہوں، انہیں چھلکے کھانے کو دیتا ہوں، خود چاول کھاتا ہوں، ان کیلئے دھان کے خول ابال کر رکھتا ہوں۔ خود میدے کے نرم نرم پراٹھے کھاتا ہوں، ان کیلئے پھوسی کی روٹی میز پر رکھتا ہوں۔
آپ کو بھی وٹامن سے محبت ہوگی! کبھی غریب خانے پر تشریف لائیے۔ انشاء اللہ ایسے ایسے وٹامن کھلاؤں گا کہ طبیعت ہمیشہ کیلئے سیر ہو جائیں گے۔ پتہ ہے۔ 27تلک روڈ۔ پونا نمبر2۔

علی گڑھ کے ہم عصر شعرا، معروضی حقیقتوں سے باطنی کیفیتوں تک!

غیر منقسم ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی مقبولیت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دانشوروں کا کردار بہت اہم تھا۔ اس دور میں یہ علی گڑھ کے اساتذہ اور طلبا ہی تھے جن کی نگارشات کبھی عام لوگوں کے استحصال کی ترجمان اور کبھی برطانوی سامراج سے آزادی کے ترانے بن کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ اس وقت کے معروف ادیب آلِ احمد سرور، سید سجاد حیدر یلدرم اور رشید احمد صدیقی یونیورسٹی کے شعبہئ اردو کے سربراہ رہے۔ ترقی پسند تحریک میں شامل علی سردار جعفری، اسرارالحق مجاز، اختر الایمان ور دوسرے نامور شعرا کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا جنہوں نے معاشرے کے مسائل اور تحریک آزادی کے نعروں کو عوام الناس تک پہنچایا۔

مرینل سین کے ایک سو سال

سین کو ہدایت کار کے طور پر اپنا راستہ تلاش کرنے میں تقریباً ڈیڑھ دہائی لگ گئی۔ بائیں بازو کے خیالات اور مظلوم عوام کیلئے تشویش نے ان کے لئے اپنا آپ سینما میں ٹرانسلیٹ کرنا مشکل بنا دیا، جس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ متوسط طبقے کے تھیٹر جانے والے بنگالی سامعین کی زندگیاں آسان تھیں۔ 1970ء کی دہائی کے سیاسی ابھار کے ہندوستان میں آنے کے بعد ہی سین کے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس دوران ریاست میں بڑے پیمانے پر عدم اعتماد پیدا ہوا، بدعنوانی میں اضافہ ہوا اور عسکریت پسند کمیونزم نے عروج پایا۔

رقص کا عالمی دن

رقص آرٹ اور کلچر کے قدیم ترین اظہار میں سے ایک ہے اور یہ جذبات اور مزاج کے اظہار کا ایک بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ رقص کی مختلف شکلیں تمام ثقافتوں میں موجود ہیں اور اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ رقص قدیم ترین انسانی معاشروں کا حصہ رہاہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق تہذیبوں کی ابتدا سے ہی رقص تقریبات اور رسومات کا ایک اہم حصہ رہا ہے تاہم اسے دنیا کے بعض حصوں میں منفی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور حکام کی طرف سے اسے کم ترجیح دی جاتی ہے۔

یوم عالمی تھیٹر

ہر سال 27 مارچ عالمی تھیٹر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کاآغاز 1962ء میں انٹرنیشنل تھیٹر انسٹیٹیوٹ نے کیاتھا۔ بین الاقوامی تھیٹربرداری اس دن کومنانے کیلئے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل تھیٹر انسٹیٹیوٹ کی طرف سے ایک نمایاں شخصیت کوتھیٹر اور بین الاقوامی ہم آہنگی پر اپنے تاثرات شیئر کرنے کیلئے دعوت دی جاتی ہے، جسے ”عالمی تھیٹرڈے پیغام“ کے نام سے جانا جاتاہے۔

ایسے معاشروں کی کہانی جہاں اقلیتیں وفاداری اور توقعات کی چکی میں پستی ہیں

بات دراصل جدید تھیٹر کے ذریعے کثیرالثقافتی معاشرے، انسانی رویوں، نفسیاتی الجھنوں اور ہجرت کے متعدد پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے، مگر میں مرزا غالب کے ایک مصرعے سے نارویجن ڈرامہ ”سوفی صد“ پر انپے اس مضمون کاآغاز کرنا چاہتا ہوں: ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں توکیا ہوتا۔“

’پاکستانی نارویجن کمیونٹی کے مشکل سفر کو ٹونی عثمان کے فن نے آسان بنایا‘

تاہم ٹونی عثمان کو ایسے لوگوں میں یوں امتیاز حاصل ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کمزوریوں اور سماجی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان عوامل کو چھاننے پھٹکنے کی کوشش بھی کی ہے جن کی وجہ سے یہ رویے جنم لیتے ہیں۔

اُدھر ہوتے تو…!

امی کریب کے سفید ڈوپٹے کو اپنی آنکھ کے کونے پر ملتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں۔ ۔ ۔ پھر وہی شور برپا ہوا، اگست کے مہینے والے”اخگر“کی آواز کی گونج نے امی کی دھیمی مگر حواس باختہ بڑبڑاہٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ”تم بے قدرے لوگ اگر یہاں نہ آتے تو وہاں پتا ہے کہ کتنا برا حال ہوتا۔ وہاں تم چپڑاسی لگے ہوتے ‘سمجھے کچھ‘ چپڑاسی“۔ مجھے لگا کہ لوہے کی رگڑ سے شل ہاتھ بے جان ہورہے ہیں، میرے خالی دماغ میں چلنے والی لہریں کسی طوفان کی زد میں آکر بہت تیز ہوکر اوپر نیچے اور دائیں بائیں گھومنے لگیں۔ وہاں ”بندہ“ چپڑاسی لگ جاتا ہے !!ہیں ہیں تو پھر یہ چپڑاسی کیسے ”اِدھر“آگیا؟ کیا یہاں پر ساری چپڑاسی ”اُدھر“ کے ہیں؟ اگریہ ”اُدھر“ کے ہیں تو پھریہ ”یہاں“ کیا کررہے ہیں؟میرا سر اور تیزی سے گھوما، ہاتھ اکھڑنے لگے۔ پاﺅں‘ اس بڑے ہوئے چبوترے سے پھسل رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھاکہ اب میرا یہاں کھڑا رہنا مشکل ہے۔ ۔ ۔ اوریہ کیا؟ میں تو اُڑرہا ہوں…. ہوا میں ….چھپاکے کی آواز آتی ہے۔ ۔ اخگرصاحب تھوک میں لپٹے لفظوں کی دھول اڑاتے ہیں….تم۔ ۔ تم ”آزادی“کی قدر نہیں کرتے، شکوے کرتے ہو!ادھر ہوتے توتم چپڑاسی ہوتے!