مزید پڑھیں...

بھارت: رواں سال پہلے ڈھائی ماہ میں عیسائیوں پر 150 سے زائد حملے ہوئے

دہلی میں واقع سول سوسائٹی تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے 2024ء کے پہلے ڈھائی ماہ کے دوران بھارتی عیسائیوں کے بنیادی حقوق میں بڑے پیمانے پر گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔

لداخ: لیہ میں بھوک ہڑتال کا 20 واں روز، کارگل میں بھی بھوک ہڑتال شروع

کارگل ڈیموکریٹک الائنس(کے ڈی اے) کے 200سے زائد رضاکاروں نے تین روزہ بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ روز 24مارچ کو کارگل کے حسینی پارک میں شروع ہونے والی اس بھوک ہڑتال میں سیاسی، مذہبی اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی۔

بھگت سنگھ کا یوم شہادت: این ایس ایف کی اندرون و بیرون ریاست سرگرمیاں

بھگت سنگھ کے نظریات و افکار اور اس کی جدوجہد آج بھی انقلابی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ سامراجی گماشتوں اور مقامی بورژوا نمائندگان نے نہ صرف بھگت سنگھ کو شہید کیا بلکہ اس کی شہادت کے بعد بھی تاریخ سے بھگت سنگھ کے کردار اور لڑائی کو مٹانے کی ناکام کوشش کی۔ ان حربوں سے ناکام ہو کر بھگت سنگھ کی جدوجہد کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہوئے اس پر قوم پرستی یا مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگانے کی بیہودہ واردات میں بھی حکمران طبقے کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھگت سنگھ جس نے محض تئیس برس کی عمر میں تختہ دار پر لٹک کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا یقینی طور پر انسانی تاریخ میں جبر کے خلاف شجاعت و دلیری اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر قربانی کی ایک بے نظیر مثال ہے۔ اس قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ انقلابی نوجوانوں کے لیے یہ ایک شکتی، حوصلے اور انقلاب سے لگن کا ایک درخشاں باب جس سے سیکھتے ہوئے بھگت سنگھ کے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہو گا۔

بحریہ ٹاؤن سے منسلک فرم پر 23 ارب کی منی لانڈرنگ کا الزام، مقدمہ سست روی کا شکار

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے کی گئی ایک انکوائری میں ایک تجارتی کمپنی وکی ٹریڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کا پتہ چلا ہے۔ مذکورہ کمپنی ملک کے معروف رئیل اسٹیٹ ڈویلپر بحریہ ڈاؤن سے منسلک بتائی جا رہی ہے۔

کیا اجتماعی آزادی کے بغیر شخصی آزادی ممکن ہے؟

”سماج کی کوئی بھی شکل ہو انسان کے باہمی اقدامات کا نتیجہ ہے۔کیا لوگ سماج کی ایک یا دوسری شکل کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں؟ کسی طرح نہیں۔یہ بات کہنا زیادہ ضروری ہے کہ لوگ اپنی پیداواری طاقتوں کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں کیوں کے ہر پیداواری طاقت ایک حاصل کی ہوئی طاقت ہوتی ہے جو پچھلی نسلوں کی سرگرمیوں کا پھل ہے۔اس طرح پیداواری طاقتیں انسان کی عملی قوت کا نتیجہ ہیں۔انسان کی سماجی تاریخ انسان کی انفردی بقا ء کی تاریخ کے سوا کچھ نہیں ہے خواہ وہ اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ۔“

نوجوانوں کو ترجیح دینا ہو گی!

سرمایہ داری کا بحران نوجوانوں کو خاص طور پر متاثر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح عام آبادی سے کہیں زیادہ اور اکثر دگنی ہے۔ وہ غیر یقینی روزگار اور عدم استحکام سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کٹوتیوں کی پالیسیوں سے عوام کی تعلیم تک رسائی محدود ہوتی ہے اور تعلیم کا معیار بھی گرتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے نوجوانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے جو نہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی کام کرتے ہیں۔ بورژوا ریاستوں کا جبرانہیں مجرم بنا کر پیش کرتا ہے، سزائیں دیتا ہے اور اکثر قتل کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری نوجوانوں کو کچھ نہیں د ے رہی۔ انہیں مواقع، زندگی کے مقصد، امید اور مستقبل سے محروم کر دیا گیا ہے۔

صنف: حقوق پر حملے اور ردِعمل

ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ محنت کش خواتین، حقوقِ نسواں اور دوسری صنفوں کے حقوق کی جدوجہد میں مداخلت کر یں تاکہ ان تحریکوں کو آگے بڑھایا جا سکے اور اپنی قوتوں کی تعمیر کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔ ایک ریڈیکل نوجوان ہراول دستہ ان تحریکوں کا حصہ ہے جو اس نظام کے اداروں اور جماعتوں پر یقین نہیں رکھتا اور انقلابی نظریات کو جذب کرنے کے لیے تیار ہے۔

بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے (دوسرا حصہ)

”بظاہر میں نے ایک دہشت گرد کی طرح کام کیا ہے، لیکن میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ میں پوری طاقت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں اور شاید اپنے انقلابی کیریئر کے آغازکے سوا کبھی تھا بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان طریقے سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ سوچ سمجھ کر میری رائے ہے کہ بم ہمارے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ یہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کی تاریخ سے ثابت ہے۔ بم پھینکنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔ ان کا استعمال صرف بعض مواقع پر کرنا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد محنت کش عوام کو متحرک کرنا ہے۔ فوجی ونگ کو خصوصی مواقع پر استعمال کیلئے جنگ کا مواد اکٹھا کرنا چاہیے۔“

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی!

بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرا مودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔

بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے

ننھے بھگت سنگھ نے بڑے جذبے کے ساتھ خود کو گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں جھونک دیا۔ اسکی آزادی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا، جب گاندھی اچانک تحریک سے دستبردار ہو گئے۔ بھگت سنگھ اپنے (آزادی کے) خواب کو اپنے طریقے سے پورا کرنے کیلئے بڑا ہوتا ہے۔ وہ چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اپنی تنظیم کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے)رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی سخت مخالفت کرتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ اگر کانگریس کے طریقے سے آزادی جیتی گئی تو نام نہاد آزاد ہندوستان میں استحصال کا راج ہوگا اور ایک وقت آئے گا، جب ہندوستان فرقہ وارانہ انتشار کی سرزمین کی صورت میں تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔