نقطہ نظر

کرونا، مڈل کلاس اور نیا عمرانی معاہدہ: عاصم سجاد اختر اور جویریا جعفری کا مکالمہ

فروا سیال

عاصم سجاد اختر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز، قائد اعظم یونیورسٹی میں سیاسی معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا شمار عوامی ورکرز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان میں سماجی تحریکوں، درمیانے طبقے کا ابھار، سٹیٹ تھیوری، انفارمیلٹی اور کلونیل تاریخ جیسے موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں۔ وہ ’پالیٹکس آف کامن سینس: سٹیٹ، سوسائٹی اینڈ کلچر اِن پاکستان ‘کے مصنف ہیں۔ ٹوئٹر: @AasimSajjadA

جویریا جعفری سٹی یونیورسٹی میں عالمی سیاسی معاشیات کی لیکچرر ہیں۔ وہ پاکستان کے مالی معاملات پر تحقیق کرتی ہیں۔ ان کی تالیف کردہ کتابGeofinance between Political and Financial Geographies: A Focus on the Semi-Periphery of the Global Finacial System کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔ ٹوئٹر: @juvaria

ترقی پذیر ممالک پر کرونا وبا کے اثرات ابھی پوری طرح واضح نہیں ہوئے۔ گو کچھ ممالک نے کسی حد تک وبا پر قابو پا لیا ہے اور ایسے ممالک میں کچھ استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے مگر بعض دیگر ممالک بحران کا شکار ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے جنوبی ایشیا کا تو بھارت کی متشدد صورتحال پر کافی توجہ رہی جہاں اندھا دھند لاک ڈاﺅن کر دیا گیا، لوگوں کو کسی قسم کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی نہ ہی ریاست نے فلاح و بہبود کے ایسے ضروری اقدامات کئے جن کی اس موقع پر ضرورت تھی۔ خطے کے باقی ممالک بشمول بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال اس تگ و دو میں مصروف ہیں کہ کرونا کے پھیلاﺅ پر قابو بھی پا لیا جائے اور لوگوں کا چولہا بھی نہ بجھے۔

اس ضمن میں پاکستان کی صورت حال پر ہم نے عاصم سجاد اختر اور جویریا جعفری سے انٹرویو کیا۔ ہم نے دونوں سے مندرجہ ذیل چار سوال کئے جن کا مقصد یہ جاننا تھا کہ یہ وبا پاکستان کے سماجی و معاشی ڈھانچے کو کیسے متاثر کر رہی ہے۔ ان سوالوں کے ذریعے ہم طبقاتی تفریق اور فِن ٹیک ( بینکنگ اور دیگر مالی معاملات کے لئے استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی) کا شہریوں کی بہبود کے لئے استعمال کی بات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ان سوالات کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس نقطے پر بحث کی جائے کہ کس طرح سے عام آدمی کی قیادت میں اس مطالبے کو پیش کیا جائے کہ ریاست شہریوں کے لئے ایک دیرپا فلاحی پیکیج سامنے لائے۔

فروا سیال: آپ دونوں کا شکریہ کہ آپ اس مکالمے میں شریک ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بتائےے کہ اس وقت کرونا کی پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟ موجودہ صورت حال کا تھوڑا سا پس منظر بھی ہمیں بتائیے۔

جویریا جعفری: سب سے پہلے تو ان اعداد و شمار کی بات کرتے ہیں جو بالکل واضح ہیں یعنی کرونا سے ہونے والی اموات۔ پاکستان میں 3,229 اموات ہو چکی ہیں اور 165,062 کرونا کے مریض ہیں (جون 2020ئ)۔ یہ اعداد و شمار …اور یہ کہ یہ کتنے درست ہیں یا کن سیاسی بنیادوں پر پیش کئے گئے ہیں…قابل ِبحث ہیں۔

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں یہ اعتراض کرتی آئی ہیں کہ یہ اعداد و شمار اصل صورتِ حال کی غمازی نہیں کرتے، مریضوں کی تعداد اصل میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں لاک ڈاﺅن نہیں ہے اس لئے مریضوں کی تعداد میں یقینا اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

جہاں تک معاشی صورت حال کی بات ہے تو پاکستان کی معاشی کمزوریاں اور شدت اختیار کر جائیں گی۔ مالی خسارہ دس فیصد سے اوپر چلا جائے گا گو ابتدائی طور پر سات فیصد کی بات کی جا رہی تھی۔ جی ڈی پی میں معیشت سکڑنے کی وجہ سے 1.5 فیصد یا اس سے بھی زیادہ کمی آ سکتی ہے۔ تیس لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہو جائیں گے لہٰذا اب اگر آبادی کا ایک چوتھائی غربت کا شکار ہے تو یہ تعداد بڑھ کر ایک تہائی تک چلی جائے گی۔ لاک ڈاﺅن کا خاتمہ کرنے سے معاشی صورت حال میں کسی خاص بہتری کا امکان نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پاکستان میں کرونا کی وبا اتنی مہلک نہیں جتنی دوسرے ممالک میں ہے تو اور بات ہے۔

اس صورت حال کے پس منظر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ معیشت اور لاک ڈاﺅن کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ عالمی اور قومی معیشت کا ڈھانچہ کس طرح کا ہے کہ جس میں لاک ڈاﺅن اور معیشت کے بیچ تعلق پر بحث کی جا رہی ہے؟

عاصم سجاد اختر: پاکستان کی سیاسی معاشیات …اور اس میں سیاسی والے حصے کی جانب زیادہ توجہ دلانا چاہوں گا…بے انتہا غیر مساوی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے، جب سے ملکی معیشت میں سرمائے کی بلا روک ٹوک مداخلت کی اجازت دی گئی ہے، دیہی علاقوں میں غریب افراد کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔ یوں گاﺅں سے شہروں کی طرف آبادی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ قصہ مختصر جز وقتی مزدوری یا سیلف ایمپلائمنٹ، شہر ہوں یا گاﺅں، ایک عام سی بات بن گئی ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عالمی معیشت کا پہیہ رک جانے کی وجہ سے غریب مزدور، وہ چاہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو، بری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ اِن فارمل لیبر بارے حتمی اعداد و شمار تو کہیں دستیاب نہیں، اس لئے درست پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی مگر کہا جا رہا ہے کہ دو کروڑ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ بہت سے مزدور ایسے ہیں جو ’باقاعدہ ملازم‘کے کھاتے میں آتے ہی نہیں۔

حکومت ِ پاکستان نے جو اقدامات اٹھائے، انہیں اسی پس منظر میں سمجھنا ضروری ہو گا۔ احساس پروگرام (جو پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کہلاتا تھا) کو توسیع دینا تا کہ کرونا وبا کا شکار ہونے والے غریب افراد کی مدد کی جا سکے، ایک ضروری اقدام تھا۔ یہ اقدام البتہ ادھورا بھی تھا اور حق دار کو اس کا حق بھی نہیں ملا اور جو رقم دی گئی انتہائی کم تھی۔ ایسا دو وجہ سے ہوا، ایک یہ کہ انتظامیہ میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ سب تک اور حق دار تک امداد پہنچا پاتی۔ دوسرا یہ کہ سیاسی ارادے کی بھی کمی تھی۔

رہی بات پاکستان کی سیاسی معیشت کی تو میں یہ کہوں گا کہ وبا کے اس دور میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سخت گیر اور بھتہ خور منطق، بالخصوص پاکستان کے لسانی مضافات کے اندر، میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

عمومی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مالی پالیسیوں کا محور ’قومی سلامتی‘ ہے۔ اسی طرح جہاں تک تعلق ہے بِگ بزنس لابیوں کا، چاہے وہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہوں یا زرعی شعبے میں جیسا کہ گندم مافیا اور شوگر مافیا، کوئی بھی ٹھیک سے ٹیکس نہیں دیتا۔ یہی لوگ ہیں جو فیصلہ سازی بھی کرتے ہیں۔

فروا سیال: عاصم! آپ کی کتاب میں پاکستان میں درمیانے طبقے کے ابھار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ابھار کا کوئی خاص پیٹرن تھا؟ میں آپ دونوں سے یہ بھی پوچھنا چاہوں گی کہ کیااس کرونا بحران کا طبقاتی پہلو بھی ہے؟

عاصم سجاد اختر: پاکستان کی طبقاتی بنت تھوڑی پیچیدہ ہے مگر آپ کی بات درست ہے کہ پچھلی چند دہائیوں سے ایک مخصوص پاکستانی مڈل کلاس کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پڑھی لکھی پاکستانی مڈل کلاس تاریخی طور پر مطلق العنان ریاستی ڈھانچے کا کل پرزہ بھی بنی رہی اور اس کی حمایتی بھی۔

ہم عصر مڈل کلاس نیو لبرل گلوبلائزیشن کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ معاشرے کا ایک بااثر اور پھیلتا ہوا طبقہ ہے جو زندگی مڈل کلاس والے لائف اسٹائل کے ساتھ گزار رہا ہے۔ یہ طبقہ اپنی سیاست کا اظہار ڈیجیٹل ذرائع کی مدد سے کر رہا ہے۔ مڈل کلاس کا بالائی حصہ، جو کافی مستحکم ہے، یا نوجوانوں کی ایک معقول تعداد جو سماجی اعتبار سے ترقی کی خواہش مند ہے، پورے زور و شور سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتی رہی ہے۔

ایسے دیگر ملک جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے اور وہاں نیو لبرل پالیسیاں رہی ہیں، وہاں اسی قسم کی سیاست دیکھنے کو ملی ہے (ہندوستان میں مودی اس کی ایک مثال ہے)۔

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ’کرپشن کا خاتمہ‘ ایسے نعرے یا اندرونی و بیرونی ’دشمنوں ‘سے نفرت کے ذریعے جب مڈل کلاس کو متحرک کیا جاتا ہے تو اسے سیاسی و معاشی نظام کی کامیابی نہیں، کمزوری کہا جائے گا۔

کرونا کی وجہ سے طبقاتی تفریق اور بڑھے گی۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ نوجوانوں کی وہ نسل جو ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جانتی ہے اور جو ماضی میں عمران خان کی پاپولسٹ سیاست کی حمایت کرتی آئی ہے، بغاوت پر آمادہ ہو گی۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ایسا کوئی سیاسی متبادل سامنے آتا ہے جو نفرت کی سیاست کو چیلنج کر سکے اور ساتھ ہی ساتھ سماجی قوتوں، درمیانے طبقے اور محنت کشوں کے درمیان ایک اتحاد پیدا کر سکے گا۔

کرونا بحران کی وجہ سے جو طبقاتی تفریق بڑھے گی اس کے نتیجے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہی پرانی مطلق العنانیت، قدرتی وسائل کے بے رحمانہ استحصال اور بڑی لابیوں کی منافع خوری جاری رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افتادگان ِ خاک اور درمیانے طبقے کا ایک اتحاد سامنے آئے جو کم از کم موجودہ سرمایہ دارانہ منطق کے برعکس تعلیم، صحت، رہائش اور ایسی بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی بات کرے۔

مڈل کلاس میں مقبول جو سوچ تھی یا جسے سروائیول آف دی فٹسٹ والی سوچ کہا جاتا ہے، کرونا بحران کے دوران بیگانگی پر مبنی یہ سوچ تو ٹوٹی ہے لیکن جب تک کوئی ایسا اتحاد سامنے نہیں آتا جو منڈی کی معیشت کو پسپائی پر مجبور کردے اور بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دے، تب تک اس سوچ کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ بحران زدہ یہ نظام ایک دھچکے سے دوسرے دھچکے تک لڑھکتا رہے گا۔

جویریا جعفری: یہ بات درست ہے کہ کرونا بحران مختلف سماجی قوتوں کے مابین اتحاد تعمیر کرنے کے حوالے سے ایک موقع تھا جسے کھو دیا گیا کیونکہ یہ بحث نہیں چھیڑی گئی کہ اس وبا کو کسی طرح سب کی شمولیت کے ساتھ شکست دی جا سکتی ہے۔ تحریک ِانصاف کی حکومت پر یہ تنقید تو رہی ہے کہ اس نے لاک ڈاﺅن ٹھیک سے نافذ نہیں کیا یا سماجی دوری کے اصولوں پر عمل درآمد نہیں کرایا، مگر حکومت کی معاشی پالیسی کے حوالے سے تنقید سامنے نہیں آئی۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ موقع تھا کہ تحریک ِانصاف نے جس فلاحی پیکیج کی بات کی تھی، اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا۔

احساس پروگرام، جس کے بارے میں میں لکھ چکی ہوں، ایک نقطہ آغاز تھا…چاہے یہ نقطہ آغازکئی مسائل کا شکار تھا…مگر اس کی بنیاد پر بہتر اور وسیع فلاحی نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ یہ پروگرام پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔

فروا سیال: جویریا حال ہی میں کرونا وبا پر قابو پانے کے لئے فِن ٹیک کے حوالے سے آپ کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ فِن ٹیک کی کیا اہمیت ہے؟ عاصم! ایسی تکنیکی ایجادات بارے ہم آپ کے خیالات بھی سننا چاہئیں گے۔ بالخصوص ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔

جویریا جعفری: پاکستانی کی وفاقی حکومت کا جو پہلا رد عمل تھا لاک ڈاﺅن کے دوران ان لوگوں کو فاقوں سے بچانے کے لئے جو معاشرے کا سب سے کمزور حصہ تھے، وہ تو یہی تھا کہ فِن ٹیک پر بھر پور انحصار کیا گیا۔ سب سے کمزور حصہ یقینا دیہاڑی دار مزدور ہیں، وہ لوگ ہیں جن کے پاس کسی قسم کی کوئی بچت نہیں یا ایسا کوئی سہارا نہیں جو مشکل اوقات میں گزر بسر کے کام آ سکے۔

مارچ کے آخر میں حکومت نے 150 ارب روپے کا ایمرجنسی ریلیف پیکیج دیا۔ یہ رقم 2.5 ملین گھرانوں، تقریباً 67 ملین افراد کو ملنا تھی۔ اس رقم کی تقسیم کے لئے ابتدائی طور پر حکومت نے فِن ٹیک پر ہی بھروسہ کیا۔

مستحق افراد سے کہا گیا کہ وہ مدد کے لئے اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر دیں تاکہ ڈیٹا بیس کی مدد سے تصدیق کی جا سکے کہ کون مستحق ہے اور کو ن نہیں۔ مستحق افراد کو تصدیق کے بعد متعلقہ سنٹر سے پیسے وصول کرنے کے لئے ہدایت جاری کر دی جاتی۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس طریقہ کار کو فِن ٹیک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بینک تو ملوث ہی نہیں تھے۔ دراصل بینک پیسوں کی ترسیل کے کام میں شامل تھے مگر مستحق افراد کی نشاندہی کرنے میں بینک شامل نہیں تھے۔ مستحق افراد کی نشاندہی البتہ اسی طریقے سے کی گئی جیسے کریڈٹ سکورنگ کی جاتی ہے۔ مستحق افراد کی ایس ایم ایس کے ذریعے نشاندہی کے لئے نادرا کا ڈیٹا بیس استعمال کیا گیا۔ جو ٹیکس دہندگان تھے، کار یا موٹر سائیکل کے مالک تھے یا کئی بار بیرون ملک سفر کر چکے تھے، انہیں احساس کفالت اسکیم کے تحت کرونا کے لئے ملنے والی سرکاری امداد کے لئے غیر مستحق قرار دیا گیا۔

فِن ٹیک ایسے معاملات میں فائدہ مند ہے جب یہ طے کرنا ہو کہ کس کو شامل کرنا ہے اور کس کو کسی فہرست سے خارج کرنا ہے۔ اب یہ اتفاق رائے سامنے آ چکا ہے کہ حکومتی اقدامات ناکافی تھے…اس لئے لاک ڈاﺅن ختم کرنے کے لئے دباﺅ بڑھ رہا ہے…مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نادرا کا نظام کافی مضبوط ہے۔

اس کے ذریعے کہیں بڑی تعداد میں مالی امداد فراہم کی جا سکتی ہے بلکہ ہر کسی تک پہنچائی جا سکتی ہے اور اگر مستقبل میں پاکستان یونیورسل بیسک انکم (سب کے لئے کم از کم بنیادی آمدن) کا نظام متعارف کراتا ہے تو اس پر عمل درآمد ممکن ہو گا۔

عاصم سجاد اختر: میں اس بات سے متفق ہوں کہ جب پیسوں کی ترسیل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوتی ہے تو یہ طریقہ کار انتہائی موثر ثابت ہوتا ہے البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مالی نظام، ادارے ہوں یا ڈیٹا اکٹھا کرنے والے نظام (بِگ ٹیک)، اگر ان کا وسیع تناظر میں جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کا حصہ ہیں۔

یونیورسل بیسک انکم سرمایہ ادری کے اندر رہتے ہوئے لوگوں کو ریلیف مہیا کرنے کی ایک اسکیم ہے۔ میرے خیال سے ضرورت ہے کہ بحرانوں کے شکار نظام ِسرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہی واحد بامعنی سیاسی و معاشی وِیژن ہے۔

ٹیکنالوجی انسانیت کو مخمصے سے دو چار کر دیتی ہے کیونکہ ایک طرف تو ٹیکنالوجی یہ امکان مہیا کرتی ہے کہ انسانی کی مادی ضروریات کا خاتمہ ممکن ہے۔ دوسری جانب، موجودہ نظام کے اندر ٹیکنالوجی دراصل لوگوں کو غلام بنائے رکھنے کا ایک ہتھیار ہے۔ ٹیکنالوجی اشتہارات اور مارکس نے جسے کموڈٹی فیٹش ازم کہا تھا، کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے ذاتی ڈیٹا کو جمع کر کے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں سماجی طور پر بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جو لاگ ڈیٹا پرائیوسی کی بات کر رہے ہیں، دراصل وہ ایک بہت بڑے مسئلے کی فقط نشاندہی کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جوطریقہ کار پہلے سے موجود ہیں ان کی مدد سے کیسے مختلف چیلنجوں سے نپٹا جا سکتا ہے جبکہ ایسے میکنزم ہمارے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کریں گے، اس بارے آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ دوسرے الفاظ میں: اس نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہنا چاہئے مگر ہماری حتمی منزل اس نظام کی بڑے پیمانے پر کایا پلٹ ہونی چاہئے۔

فروا سیال: آپ اور عوامی ورکرز پارٹی یا بعض دیگر حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو جو ریاستی امداد مل رہی ہے اسے کرونا بحران تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ آپ کے مطالبات کیا ہیں اور ان مطالبات کے نتیجے میں طبقاتی تفریق کیسے کم ہو گی؟

عاصم سجاد اختر: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم ان سیاسی و سماجی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو بلا امتیاز تمام شہریوں کے لئے مفت تعلیم، صحت، گھر اور کم از کم آمدن کی بات کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہ سادہ سی بات نہیں ہے کہ ریاست کو منڈی کی معیشت پر ہلکا سا چیک رکھنا چاہئے۔ سرمایہ دارانہ جدت کی پانچ سو سالہ تاریخ کے دوران ریاست اور منڈی کے مابین گہرا رشتہ موجود رہا ہے۔ گذشتہ تیس سال کے دوران پاکستان جیسے پوسٹ کلونیل ممالک میں ریاست نے ملٹی نیشنل سرمائے کو ملکی وسائل پر قبضہ کرنے اور معیشت کے ہر شعبے کو جنس بنا کر بیچنے کے لئے پوری مدد فراہم کی ہے۔ جن چیزوں کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، وہ سب بھی اس میں شامل ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ہم نہ صرف یونیورسل بیسک انکم اور دیگر پبلک سروسز کی بات کر رہے ہیں بلکہ ہم تو یہ ریاست کو کیسے چلایا جا رہا ہے، اس کی بات بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ شہری علاقوں کے محنت کش مضافات ہوں یا پاکستان کے جغرافیائی مضافات، پاکستانی ریاست اپنی فطرت کے اعتبار سے آج بھی کلونیل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہو اکہ ایک ایسی ریاست جو لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور جس کا احتساب ہو سکے، ایسی ریاست کا مطالبہ ایک نارمل بات ہونی چاہئے۔ ہم اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ صرف کرونا جیسے بحرانوں کے دوران ہی ریاست لوگوں کا خیال رکھے۔ اس کا مطلب تو اس نیو لبرل سوچ کو تسلیم کرنا ہے کہ لوگوں کی ضروریات پورا کرنا لازمی نہیں (کبھی اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مالی وسائل نہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ ریاست میں انتظامی صلاحیت نہیں، یا یہ کہ ریاست ’ناکام‘ ہو گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے کئی مین اسٹریم بیانئے موجود ہیں)۔ اس سے بھی خوفناک یہ بات کہ اگر ریاست جبر کرنے اور لوگو ں کو دبانے کی صلاحیت بڑھانا شروع کر دے۔ دراصل ریاست کا اصل مقصد ہی تشدد ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ پوسٹ کلونیل ریاست اپنے اکثر شہریوں کو شہری کی بجائے رعایا سمجھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ریاست یہ چاہتی ہے کہ لوگ صارف بن جائیں مگر ان صارفین کے پاس کوئی سیاسی، معاشی اور ثقافتی آزادیاں نہ ہوں۔

اس لئے آج کے حالات میں یونیورسل بیسک انکم کی بات کرتے ہوئے ہم درمیانی اور لمبے عرصے میں ریاست کی سمت از سر ِنو متعین کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جو عوامی جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہو نہ کہ قومی سلامتی کے نام پر چلنے والا ایک ایسا ڈھانچہ جس کا احتساب ممکن نہ ہو۔ سرمایہ داری بلاشبہ ایک عالمی نظام ہے اور کسی سیاسی نظام میں کس طرح کی چوائس موجود ہے اس پر بھی عالمی سرمایہ داری نظام اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان کے سیاق و سباق کو عالمی معیشت سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔

قصہ مختصر: ہمارے کچھ فوری مطالبے ہیں مگر آنے والے دور میں ہم ایک مکمل تبدیلی چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر انسان کی عزتِ نفس اور بنیادی آزادیوں کا تحفظ ہو سکے، ہم ترقی کا ایک ایسا ماڈل چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ماحولیات کی تباہی نہ ہو، ہم انسانی دانش (بشمول ٹیکنالوجی) کے ذریعے منڈی کی معیشت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

جویریا جعفری: میں کم از کم آمدن کے سوال پر عاصم کی بات کو آگے بڑھانا چاہتی ہوں۔ کرونا بحران کے آغاز پر اس بارے کافی بات ہو رہی تھی مگر اب اس کی باز گشت سنائی نہیں دے رہی…کم از کم آمدن کے قابل ِعمل ہونے کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں۔ کیا پاکستان یہ منصوبہ افورڈ کر سکتا ہے؟ دوم، اس پر عمل کیسے ہو گا؟ سوم: کیا یہ منصوبہ موثر ہو گا؟

افورڈ کرنے کا سوال تو اتنا مشکل نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کتنی رقم تقسیم کرنی ہے اور کتنی مدت کے بعد کرنی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم یونیورسل بیسک انکم کی بات کر رہے ہیں جو پاکستان کے ہر شہری بلکہ شائد ہر رہائشی کو ملنی ہے، چاہے اس کی آمدن کچھ بھی ہو۔ عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ جن کو اس آمدن کی ضرورت نہیں، وہ اس کا مطالبہ بھی نہیں کریںگے۔ اگر وہ یہ آمدن وصول بھی کریں گے، تو یہ رقم مقامی معیشت کا ہی حصہ بنے گی۔

اعداد و شمار کا تخمینہ انتہائی اہم ہے۔ فرض کیجئے اگر 12 ہزار ماہانہ کی بنیاد پر 50 ملین گھرانوں کو یہ رقم فراہم کی جائے تو یہ کل جی ڈی پی کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ یہ کل حاصل ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔ کچھ ممالک میں یونیورسل بیسک انکم کا انحصار قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدن پر ہے لیکن پاکستان میںیہ قابل ِعمل نہ ہو گا۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ غیر ملکی ذرائع پر انحصار کیا جائے مثلاً یہ معاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ قرضوں پر جو سہولت ملتی ہے اسے یونیورسل بیسک انکم میں تبدیل کر دیا جائے۔ حکومت پاکستان اپنے سنٹرل بینک کے ذریعے اپنے مالی انتظامات کی مدد سے قرضے جاری کر سکتی ہے۔

ایک زیادہ انقلابی طریقہ وہ ہو گا جس کی بات ماڈرن مانیٹری تھیوری (ایم ایم ٹی) کرتی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق کوئی حکومت اگر چاہے تو وہ قرضہ لئے بغیر بھی دولت پیدا کر سکتی ہے۔ سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسیز (سی بی ڈی چی) پر جو تحقیق ہوئی ہے، وہ ایم ایم ٹی تھیوری کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ اس انتظام کے تحت بینک لوگوں کے کھاتے کھول کر ان میں ڈیجیٹل کیش منتقل کر دیں گے۔ اس طرح افراطِ زر تو بڑھے گا مگر ایسی کوئی تحقیق ابھی تک سامنے نہیں آئی کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہوگا۔

فِن ٹیک ان اقدامات کا ایک اہم حصہ ہو گا۔ میرا دوسرا نقطہ اسی سے جڑا ہے: یعنی کہ یونیورسل بیسک انکم کی تقسیم کیسے ہو گی۔ احساس ایمرجنسی پروگرام نے یہ مثال تو قائم کر دی کہ ڈیٹا بیس کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یونیورسل بیسک انکم پر عمل شروع ہو تا ہے تو اس کا دائرہ کار اس طرح بڑھایا جا سکتا ہے کہ (۱) ڈیجیٹل پیسوں کی ترسیل بینکنگ نظام کے اندر رہ کر ہو رہی ہو (۲) کیش ٹرانسفر سِم کارڈ کے ذریعے ہو۔ یوں کوئی دو دفعہ پیسے وصول نہیں کر سکے گا۔

تیسرا نقطہ تھا کہ یونیورسل بیسک انکم کتنی موثر ہو گی۔ اس کے موثر ہونے کے لئے سب سے پہلے تو یہ سوچ ترک کرنا ہو گی کہ لوگ فراڈ کریں گے اور غیر مستحق افراد اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر اہم بات اس نقطے پر زور دینا ہے کہ مستحق افراد کو فائدہ ہو گا۔

اس یونیورسل بیسک انکم کے علاوہ بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بنیادی اشیا مثلاً خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہونا چاہئے۔ یہ بھی حکومت یقینی بنائے کہ مہنگائی کو کیسے قابو رکھنا ہے اور سٹے بازی کو کیسے قابو کرنا ہے۔

بشکریہ: ڈویلپنگ اکنامکس بلاگ

Farwa Sial
+ posts

فروا سیال نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن، سے پی ایچ ڈی کی۔ آج کل وہ گلوبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف مانچسٹر میں پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچر ہیں۔ وہ ’بزنس اینڈ ڈویلپمنٹ گروپ‘ کی کنوینر بھی ہیں۔