خبریں/تبصرے

ٹرمپ سمیت عالمی رہنما فیک نیوز کی آڑ میں میڈیا کو کنٹرول کرنا بند کریں: امان پور

نیو یارک (قیصر عباس) سی این این کی عالمی رپورٹنگ کی سربراہ اور مشہور صحافی کرسچیان امان پور نے کہاہے کہ ”کانگریس امریکہ میں آزادی اظہار پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کا نوٹس لے اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے میں اپنا موثر کردار اداکرے۔“ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صدر ٹرمپ اور عالمی رہنما فیک نیوز کو جواز بناکر میڈیا پر پاندیاں عائد کرنا بندکریں۔

جمعرات کو نیویارک میں ہلسنکی کمیشن کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے امریکی مقننہ کو یاددلایا کہ”آپ کی جمہوری روایات کا بھرم آزادی اظہارکے موثر نفاذ پرقائم ہے۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ دنیا میں کتنے رہنما صدر ٹرمپ کے طرزعمل کو دہراتے ہوئے فیک نیوز کو میڈیا پر پابندیوں کا جواز بناتے ہیں۔ امریکی صدر اور دنیا کے لیڈروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرز عمل کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔“

امریکی ادارہ’ہلسنکی کمیشن‘ آج کل امریکہ میں آزادیئ اظہارکی حالیہ خلاف ورزیوں، وائٹ ہاؤس کی جانب سے میڈیا پر تنقید اورعالمی نشریات کے امریکی اداورں میں وائٹ ہاؤس کی بے جا مداخلت پر صحافیوں اور عالمی تنظیموں کے بیانات ریکارڈ کررہاہے۔

امان پور کے علاوہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے کی ایڈوکیسی کی ڈائریکٹر کرٹنی ریڈز اور اقوام متحدہ کے آزادیئ اظہارکے حقوق کے خصوصی نمائندے ڈیوڈکے نے بھی کمیشن کے روبرو اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔

کرٹنی ریڈز نے اپنے بیان میں کہا کہ”آج جب کہ عوامی سطح پر احتجاج کی کوریج پہلے ہی میڈیا کے لئے مشکل بنادی گئی ہے، کووِڈ 19 کی صورت حال رپورٹرز کے لئے دو دھاری تلوار بن گئی ہے جو ان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ملکوں میں حالات صحافیوں کے لئے بے حد خطرنا ک ہوچکے ہیں اور خودامریکہ میں صحافیوں کے حقوق پرسوال اٹھ رہے ہیں جسے ان معاملات میں عالمی ضمیر کی آواز اور لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ اس صورت حال میں امریکی کانگریس اور عالمی رائے عامہ کو آگے بڑھ کر میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانا چاہئے۔“

امریکی ادارہThe Commission on Security and Cooperation in  Europe جسے عام طور پر ہلسنکی کمیشن کے نام سے پہچاناجاتاہے، شمالی امریکہ، یورپ اور یوریشیا کے ستاون ملکوں میں انسانی حقوق، دفاعی سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے لئے کام کرتاہے۔ ادارے کے اکیس کمشنروں میں کانگریس کے اٹھارہ اور امریکی انتظامیہ کے تین نمائندے شامل ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts