خبریں/تبصرے

سرگودھا کے شہری کا عمران خان کے نام کھلا خط

فاروق سلہریا

محترم عمران خان صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔

ہم اہلیان سرگودھا کو ٹیلی وژن سے پتا چلا کہ آپ اچانک کل ہمارے شہر تشریف لائے۔ اگر آپ ہماری دعوت پر نہ سہی ہمیں بتا کر ہی آئے ہوتے تو ہم ضرور آپ کا استقبال کرنے آتے۔ ہمارے شہر میں کھیل کے میدان تو اب کم ہی بچے ہیں مگر ہم آج بھی اچھے کھلاڑیوں کے راستے میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں۔ اولمپین فیاض ہو یا زاہد، پروفیسر حفیظ ہو یا شفقت‘ ہم اہلیانِ سرگودھا کو ان پر فخر ہے۔ آپ کرکٹر حفیظ کے علاوہ کسی کو شاید نہ جانتے ہوں گے۔ بہتر ہے مختصر سا تعارف کرا دوں۔ جب 1984ء میں پاکستان ہاکی ٹیم آخری بار اولمپکس میں جیتی تو زاہد بھائی گرین شرٹس کا حصہ تھے۔ 1994ء میں جب پاکستان ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا تو شفقت ٹیم کے سنٹر ہاف تھے۔ فیاض ہمارے قابلِ فخر رنر تھے۔ سیول اولمپکس میں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

از راہِ تفنن مجھے یاد دلانے دیجئے کہ ہاکی کا ورلڈ کپ توہم نے چار دفعہ جیتا ہے مگر جو قیمت اس ملک نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر چکائی ہے اس کا اندازہ تو آپ کو خود بھی ہو رہا ہو گا۔ میرے ایک دوست جو مجھے کھیلوں کا ماہر سمجھتے ہیں‘ کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ کیا کرکٹ کا ورلڈ کپ واپس نہیں ہو سکتا۔

یہ تمہید اس لئے کہ ہمارے شہر کے اکثر لوگ آپ کی انتخابی جیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ا ن کا خیال ہے جو 1990ء میں ہوا تھا، وہی کچھ پچھلے انتخابات میں بھی ہوا۔ ذرا بتا دوں کہ 1990ء میں کیا ہوا تھا۔

سرگودھا شہر میں پیپلز پارٹی نے ایم این اے کی نشست پر ایڈوکیٹ احسان قادر شاہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ شاہ صاحب شہر کی مقبولِ عام شخصیت تھے۔ اپنی شرافت، ذہانت اور محنت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا آئیڈیل تھے۔ یہ سب لیکن کافی نہ ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھٹو کے وکیل بھی تھے۔

اہلیان سرگودھا نے ضیاالحق کے دور میں بھی بے مثال آمریت مخالف جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد کی ایک علامت خان آصف خان تھے۔ جب 1979ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تو کینٹ بورڈ کے وائس چیئرمین خان آصف خان بن گئے۔ وہ دورِ طالب علمی میں این ایس او کے رکن تھے۔ جب بیگم نصرت بھٹو نے بلدیاتی نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ استعفیٰ دے دیں تو خان آصف خان نے استعفیٰ دے دیا۔ ضیا آمریت کی مخالفت کی پاداش میں انہوں نے جیل کی ہوا بھی کھائی۔ یہ ان سیاسی کارکنوں کی جدوجہد تھی کہ آج ملک میں جمہوریت اور تھوڑی بہت جمہوری آزادیاں ہیں۔ انہی آزادیوں کا فائدہ اٹھا کر میں یہ مراسلہ ارسال کر رہا ہوں۔

تو ہوا یوں کہ 1990ء میں احسان قادر شاہ کے ہمراہ خان آصف خان بھی پنجاب اسمبلی کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ دونوں کی جیت یقینی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں جیت بھی گئے لیکن جب اگلے روز پی ٹی وی پر انتخابی نتائج کا اعلان ہوا تو ہمارے دونوں امیدواروں کی ناکامی کا اعلان کر دیا گیا۔

اُن دنوں نکّے کے معروف اَبّا کو نواز شریف سے بہت پیار تھا۔ اتنی تاریخ تو آپ کو معلوم ہی ہو گی۔ ان کی جماعت انتخاب جیت گئی مگرسرگودھا میں پیپلز پارٹی والوں نے اس جیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ 1990ء کے انتخابات میں فتح کسی کو ملی تھی اور نمائندگی کسی اور کو۔

بات چلی ہے تو بتاتا چلوں نواز شریف نے 1988ء میں ہمارے ضلع سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر بخش میلہ سے بری طرح شکست کھائی۔ پھر جب بے نظیر نے ہی جنرل اسلم بیگ کے سینے پر تمغہ جمہوریت لگا دیا تو ہم اہلیان سرگودھا نے بھی مزاحمت کا راستہ ترک کر دیا۔

رومانس کی طرح مزاحمت بھی اس علاقے کی پرانی روایت ہے۔ بد قسمتی سے آپ دونوں سے نابلد ہیں ورنہ آپ چوروں کی طرح سرگودھا نہ آتے۔

ہمیں لیکن شکوہ آپ کے چوری آنے پر نہیں ہے۔ ہمیں گلہ اس بات پر ہے کہ جن باتوں پر آپ کو بطور وزیر اعظم شرمندہ ہونا چاہئے آپ اس پر غصہ ہو رہے ہیں۔ مراد یہ کہ ہمارے سول ہسپتال میں آپ عملے پر اس بات پہ برہم دکھائی دئیے کہ ہسپتال کے ایک بیڈ پر تین بچے کیوں ہیں!

حیرت ہے کہ آپ کو اس سادہ سے سوال کا جواب بھی معلوم نہیں۔

آپ نے سرگودھا ائیر بیس پر لینڈ کیا۔ پاک فضائیہ کے اس جدید ترین اڈے سے نکل کر جب آپ سول ہسپتال روانہ ہوئے ہوں گے تو پی اے ایف روڈ پر موجود چوکی کے بائیں جانب موجود شاہین سینما تو شاید آپ کی توجہ حاصل نہ کر سکا ہو مگر دائیں جانب دیوہیکل پی اے ایف ہسپتال پر تو آپ کی نظر ضرور پڑی ہو گی۔

کیا اچھا ہوتا آپ اس ہسپتال کا دورہ بھی کر لیتے۔ یہاں آپ کو نہ صرف ایک بیڈ پر ایک مریض دکھائی دیتا بلکہ ہسپتال کی صفائی ستھرائی سے بھی آپ متاثر ہوتے۔

اگر آپ نے پی اے ایف ہسپتال کا دورہ کیا ہوتا تو وردی میں ملبوس کوئی چست سا ڈاکٹر آپ کو سست سی بریفنگ بھی دیتا۔ اس شاہین صفت ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے آپ بھی احتراماً اپنا سیاہ چشمہ اتار دیتے۔ ڈاکٹر (وہ بھی فوجی وردی میں!) انسانیت کے مسیحا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔

مفروضہ بریفنگ کے دوران ہمارے باوردی ڈاکٹر صاحب یقینا آپ کو بتاتے کہ اس ہسپتال سے لگ بھگ ایک لاکھ لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ ان میں پاک فضائیہ کے اہلکار اور ان کے خاندان ہی نہیں ریٹائرڈ اہل کار بھی شامل ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتایا جاتا کہ ہسپتال میں دوائیوں کا بجٹ انیس کروڑ روپے ہے۔

وائے قسمت آپ رکے ہی نہیں۔ آپ سیدھا گندے مندے سول ہسپتال پہنچ گئے جہاں دوائیوں کا کل سالانہ بجٹ چھ کروڑ ہے۔ اس سوِل ہسپتال پر سرگودھا کے دس لاکھ لوگ ہی نہیں میانولی، خوشاب اور دیگر مضافاتی علاقوں کے لاکھوں مریض بھی انحصار کرتے ہیں۔

یہ ”عام مریض“ صاف ستھرے پی اے ایف ہسپتال نہیں جاتے کیونکہ وہاں انہیں فیس دینی ہوتی ہے۔ پی اے ایف ہسپتال کے علاوہ سرگودھا میں ایک صاف ستھرا سی ایم ایچ بھی ہے۔ لیکن وہاں بھی عام شہریوں کو فیس دینی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک عنصر یہ بھی ہے کہ موٹر سائیکلوں، سائیکلوں، رکشوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں پر آنے والے مریضوں کو حفاظتی چیک پوسٹوں پر جتنی تلاشی دینی پڑتی ہے اس سے بچنے کے لئے بہت سارے لوگ سول ہسپتال سے بہتر علاج کروانا چاہیں تو چپ چاپ کسی پرائیویٹ کلینک چلے جاتے ہیں۔

لیکن سی ایم ایچ اور پی اے ایف ہسپتال آنے والے اکثر سویلین اتنے بلڈی نہیں ہوتے۔ کچھ بڑی گاڑیو ں میں آتے ہیں۔مجھے شک ہے کہ وہ ووٹ بھی آپ کو دیتے ہیں۔دریں اثنا سی ایم ایچ والوں کی دوائیوں کا بجٹ جاننے کی میں نے کوشش نہیں کی۔ شاید آپ بھی کبھی نہ کریں۔

اہلِ سرگودھا کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ہسپتال پر چھاپے مارنا آپ کا کام نہیں ہے۔ بہتر ہوتا آپ چوری چھپے اتنی دور آنے کی بجائے بنی گالا کے پڑوس میں چک شہزاد چلے جاتے۔ فرشتہ مہمند کے بدنصیب والد کو گلے لگاتے۔ فرشتہ کی والدہ کی دلجوئی کرتے۔ وہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اے آر وائی کو بتاتے کہ بچے اور متاثرین پاکستانی، افغان یا ہندوستانی نہیں ہوتے…

والسلام
فاروق سلہریا
26 مئی 2019 ء

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔