خبریں/تبصرے

کھاد اور ٹیکسٹائل مل مالکان 457 ارب روپے دینے سے انکاری ہیں

فاروق طارق

گیس انفراسٹریکچر ڈویلپمنٹ سیس (GIDC) 2011ء میں حکومت کی جانب سے لگایا تھا۔ اس وقت کھاد اور ٹیکسٹائل مل مالکان کو کہا گیا کہ یہ ٹیکس کسانوں اور صارفین سے اکٹھا کرنا شروع کریں۔

مقصد تھا کہ اسے اکٹھا کر کے حکومت کو دیں۔ انہوں نے اب تک 457 ارب روپے لوگوں سے اکٹھا کیا ہے مگر حکومت کو دیا نہیں۔ الٹایہ مالکان عدالتوں میں چلے گئے۔ مختلف بہانوں سٹے آرڈر لے لئے۔

سپریم کورٹ نے اس سال 13 اگست کو یہ فیصلہ دیا کہ حکومت ان مل مالکان کے ذمہ واجب الادا 457 ارب روپے مل مالکان سے لازمی حاصل کرے۔ عدالت نے صرف یہ رعائت دے دی کہ وہ 24 قسطوں میں یہ رقم ادا کر دیں۔

11 ستمبر کو کھاد فیکٹریوں اور ٹیکسٹائل مل مالکان کے دو وفد حکومتی وزیروں سے ملے اور کہا کہ قسطیں دو سال کی بجائے دس سال میں لی جائیں۔ ڈیلی ڈان کے مطابق حکومت اس بات پر متفق نہیں اور حکومت نے یہ رقم ادا کرنے پر زور دیا ہے۔

اگر کسی عام آدمی یا درمیانہ طبقہ کے کسی فرد نے ایسا کیا ہوتا تو ان کی گرفتاری سے لیکر ان کے اثاثوں کی قرقی تک بات پہنچتی مگر یہ تو حکومت کے اپنے لوگ ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ حکومت کب ان کی بات مان کر سپریم کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے انہیں دس سال میں ادا کرنے کی مہلت دیتی ہے۔ اب ذرا ان کھاد فیکٹریوں کے منافع پر نظر دوڑا لیں:

فوجی فرٹیلائزر کمپنی کا منافع پچھلے تین سال میں 48 سے 60 فیصد تک رہا۔ یہی صورت حال فاطمہ، اینگرو اور دیگر کی ہے۔ اب یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر یہ پیسہ ان سے زبردستی لیا گیا تو وہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے۔

گویاانصاف مل مالکان کے لئے اور ہے اور عام لوگوں کے لئے اورانصاف بھی طبقاتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔