خبریں/تبصرے

جیو ٹی وی کی ’فحاشی‘ کی کمائی سے انصار عباسی کی ’حلال‘ تنخواہ

عدنان فاروق

انصار عباسی ان مہان ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں سکرین پر دیکھ کر یا’جنگ‘ میں پڑھ کر جون ایلیا یاد آتے ہیں:

گذشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے موصوف نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا تھا کہ عدالت ٹیلی ویژن چینلوں پر ہونے والی ’فحاشی‘کا نوٹس لے اور اس کا تدارک کرنے کے لئے مداخلت کرے۔

ان دنوں وہ پھر خبروں میں ہیں۔ عباسی صاحب کو پی ٹی وی پر ورزش کرتی ایک خاتون انتہائی فحش دکھائی دیں۔ جلال میں آ کر ٹویٹ داغ دیا۔ ساتھ میں جنرل عاصم سلیم باجوہ اور شبلی فراز کو ٹیگ کر دیا۔ ان کے ٹویٹ سے زیادہ ہنسی مجھے ان کے ٹیگ کرنے پر آئی۔ معلوم نہیں انہوں نے اپنے پرانے دوست احمد نورانی کی خبر کے بعد جنرل عاصم سلیم باجوہ کو ٹیگ کیا تھا یا نہیں مگر جو کچھ شبلی فراز کر رہے ہیں، احمد فراز کی نظر میں اس سے بڑی فحاشی شائد کوئی اور نہ ہوتی۔

مجھے اوریا مقبول جان بھی یاد آئے جنہیں کرکٹ کھیلتی ہوئی لڑکیاں فحش لگتی ہیں۔ مجھے ضیا آ مریت بھی یاد آئی جسے ہاکی کھیلتی لڑکیاں فحش دکھائی دیتی تھیں اور تو اور نیوز کاسٹر کے سر پر زبردستی دوپٹے پہنائے گئے کہ خبریں پڑھتی ہوئی مہ پارہ صفدر اور شائستہ زید جیسی گریس فل خواتین بھی ضیا الحق کو فحش دکھائی دیتی تھیں۔

ان سب کو فرقہ واریت، طالبان کا گلے کاٹنا، مدرسوں میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد، چائلڈ لیبر، مزدوروں کا شرمناک استحصال، جاگیرداروں کے ظلم، جمہوریت پر شب خون…جیسا کچھ فحش نہیں لگتا۔

ان کا سارا غصہ کسی نیوز کاسٹر، کسی خاتون کرکٹر یا کمرشل میں کام کرنے والی کسی لڑکی پر نکلتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہی انصار عباسی اور اوریا مقبول جان اسی’فحاشی‘ کی کمائی سے اپنی تنخواہ لیتے ہیں۔

دیکھئے بات سیدھی سی ہے۔ جنگ ہو یا جیو…تجاری میڈیا ادارے اشتہاروں کی کمائی سے چلتے ہیں۔ وہی اشتہار جن میں انصار عباسی کو ’بے حیا‘ نظر آنے والی خواتین ’فحاشی‘ کا موجب بن رہی ہوتی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ہر مہینے عباسی صاحب موٹی تازی تنخواہ اسی ’حرام‘کی کمائی سے لیتے ہیں جو جیو (جنگ) گروپ کو ’فحاشی‘ سے ہوتی ہے۔

بقول سہیل وڑائچ صاحب: کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

Adnan Farooq
+ posts

عدنان فاروق ایک صحافی اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں۔