خبریں/تبصرے

کرونا وائرس، صدر ٹرمپ اور نیا ’اکتوبر سرپرائز‘

قیصر عباس

وائٹ ہاؤس کے حالیہ اعلان کے مطابق صدر ٹرمپ کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیاہے جس کے بعدوہ ہسپتال میں داخل ہوگئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ وہ اگرچہ خطرے سے باہر ہیں لیکن انہیں سخت نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔ خاتون اؤل، جو خود بھی اس وباسے متاثر ہیں، قرنطینہ میں ہیں لیکن ہسپتال میں داخل نہیں ہیں۔

ہفتے کے دن ہسپتا ل کے عملے نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ صدر اب بہتر حالت میں ہیں اور انہیں سانس لینے میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اس کے برعکس وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز نے کہاہے کہ صدر گزشتہ بہتر گھنٹوں سے کرونا وائرس کا شکارہیں اور انہیں جمعے کے دن ہسپتال لے جانے سے پہلے آکسیجن پر رکھا گیاتھا۔ تاہم انہوں فوکس نیوز کو بتا یا کہ وہ اب چل پھر رہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ہسپتال کی جانب سے صدر کی بیماری کو مصلحتاً کم اہمیت دی جا رہی ہے۔

اس صورت حال کے پس منظر میں امریکہ میں اب یہ بحث جاری ہے کہ کیا صدر گزشتہ منگل کے دن پہلے صدارتی مباحثے میں بھی بیمار تھے جس میں انہوں نے کھلم کھلا اپنے مخالف جو بائیڈن کو ماسک پہننے پر تضحیک کا نشانہ بنایا تھا؟ ان کے مخالف امید وار جو بائیڈن نے ہمیشہ صدارتی مہم میں عام جلسوں کے بجائے محدود پیمانے پر جلسے منعقد کئے ہیں اور ماسک کے استعمال پر زور دیا۔ ان کے تمام کرونا ٹیسٹ کے تنائج بھی منفی آئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق صدر کی ایک قریبی ایڈوائزاور کمیونیکیشن کی سربراہ ہوپ ہکس (Hope Hicks) حال ہی میں اس وبا سے متاثر ہوئی تھیں جوصدرکے ہمراہ دوروں اور صدارتی جلسوں میں سفرکر رہی تھیں۔ عام خیال یہی ہے کہ وہی اس وبا کے پھیلاؤ میں ملوث ہو سکتی ہیں۔

نئی صورت حال میں وائٹ ہاؤس کا زیادہ تر عملہ گھرسے کام کر رہا ہے اور انہیں صر ف اس وقت آنے کی اجازت دی جا رہی ہے جب ان کے دو کرونا وائرس ٹیسٹ کے نتائج منفی ثابت ہوتے ہیں۔

نائب صدر مائیک پینس (Mike Pence) اور ان کی اہلیہ کیرن پینس (Karen Pence) کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ اپنے صدارتی کام خود سرانجام دے رہے ہیں لیکن نائب صدرنے جو ابھی تک اس وبا سے محفوظ ہیں، صدر کے کچھ اختیارات خود سنبھال لئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے سرِعام کرونا کو کبھی ایک افواہ اور کبھی ”ایک ایسی بیماری جو عنقریب جادو کی طرح غائب ہوجائے گی“ سے تعبیر کیا۔ یہ نہ صرف ان کی ایک انتخابی حکمت عملی تھی جس کے تحت وہ اس وبا کے اثرات کو کم اہمیت دیتے رہے بلکہ اپنی ذاتی اور سرکاری مصروفیات میں بھی انہوں نے احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان مصروفیات میں وہ ہمیشہ ماسک کے بغیر نظرآئے بلکہ اپنی اکژ تقریروں میں اس کی اہمیت سے انکار کرتے رہے اور ان ماہرینِ صحت کا مذاق اڑاتے رہے جو ان پر عمل کی ہد ایات دیتے ہیں۔

مبصرین کے خیال میں صدر ٹرمپ نے احتیاطی تدابیر کے بغیرصدارتی انتخابات کے جلسوں میں حصہ لے کر نہ صرف اپنی بلکہ شرکا اور اپنے عملے کی صحت کو بھی خطرات سے دو چار کیا۔ چھبیس ستمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کی نئی جج کی نامزدگی کی تقریب وائٹ ہاؤس کے لان میں منعقد کی جس میں شرکا نے ماسک پہنے بغیر شرکت کی۔ اس تقریب کے کئی شرکا جن میں صدر کے عملے کے ارکان اور رپبلکن پارٹی کے اعلیٰ عہدیدا ر شامل ہیں، میں اب کرونا ٹیسٹ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ اس نئی صورت حال میں صدر کی انتخابی مہم کا ازسرنو جائزہ لیا جارہاہے اور ان کی مہم کے سربراہ جنہوں نے ماضی میں نہ جلسوں کے شرکا کو احتیاطی تدابیر کی ہدایات جاری کیں نہ خود ان پر عمل کیا اب نئے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے میں مصروف ہیں لیکن مہم کے ان آخری ہفتوں میں ان کے کیا اثرات ہوں گے یہ کہنا بہت مشکل نظرآتاہے۔

ادھر کچھ ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ صدر اس صورت حال کا فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں۔ نامور صحافی اور مصنف نومی کلائین کا کہنا ہے کہ صدر کہہ سکتے ہیں کہ اس بیماری کے باعث وہ صدارتی مہم میں بھرپور حصہ نہیں لے سکے اس لئے یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں عرب سینٹر کے ایگزیٹو ڈائریکٹرجھشان خلیل نے پاکستانی اخبار’دی نیوز‘ کی اتوار کی اشاعت میں شامل ایک انٹڑ ویو میں کہا ہے کہ ”صدرٹرمپ کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ وہ دوسری مرتبہ کس طرح صدر منتخب ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ کسی بھی مہم جوئی کی ابتدا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی تمام فیصلہ سازی بھی اس مقصدکے تحت ہورہی ہے۔ وہ اب سیاسی طورپر کمزور نظر آرہے ہیں اور مجھے کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر وہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کوئی غیر معمولی قدم اٹھائیں۔ وہ نہ صرف الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرسکتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی بھی کرسکتے ہیں۔“

اس تمام پس منظر میں دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت ایک نئے بحران کا شکار ہوگئی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ نیا ’اکتوبر سرپرائز‘، جس کا آج کل سیاسی تجزیوں میں ذکر ہو رہا ہے، کس صورت میں نازل ہو گا اور نومبرکے انتخابات کے بعد امریکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔