تاریخ

انسانی سماجوں کی مختصر تاریخ

عمران کامیانہ

انسانی سماج ہمیشہ سے طبقات میں تقسیم نہیں رہا ہے۔ انسان کو اپنی موجودہ جسمانی شکل میں ارتقا پذیر ہوئے تقریباً دو لاکھ سال ہوئے ہیں (اگرچہ 33 لاکھ سال پرانے پتھر کے اوزار بھی دریافت ہوئے ہیں)۔ لیکن طبقات کا وجود پچھلے آٹھ سے دس ہزار سال کے دوران ہی نظر آتا ہے۔ بعض سماجوں میں تو اس سے بھی بہت بعد تک طبقات نمودار نہیں ہوئے۔ یوں انسانی تاریخ کا بیشتر حصہ طبقات سے پاک رہا ہے۔ اِس قدیم غیر طبقاتی سماج کو ’قدیم اشتراکیت‘ بھی کہا جاتا ہے۔

قدیم اشتراکی سماج (Primitive Communism)

قدیم اشتراکی سماج میں ذرائع پیداوار (جو بالکل ابتدائی اور پسماندہ شکلوں میں تھے) کی نجی ملکیت کا تصور موجود نہ تھا۔ اگر کہیں نجی ملکیت ذاتی اوزاروں کی حد تک موجود بھی تھی تو عدم مساوات سے بچنے کے لئے موت کے بعد انہیں ان کے مالک کے جسم کے ساتھ ہی جلا یا دفن کر دیا جاتا تھا۔ سماجی رشتے مساوات پر مبنی تھے یعنی پیداوار پر سب کا حق مساوی تھا۔ خوراک کے حصول کے لئے قبیلے کے تمام صحت مند افراد جانوروں کے شکار یا جنگلی پھل اور سبزیاں اکٹھی کرنے کے عمل میں شریک ہوتے تھے۔

محنت کی تقسیم صرف مردوں اور عورتوں کے درمیان تھی جس کی وجوہات خالصتاً فطری تھیں۔ مرد شکار پر جایا کرتے تھے تو عورتیں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور سبزیاں، پھل وغیرہ جمع کرتی تھیں۔ بعض صورتوں میں خوراک کی فراہمی میں عورت کا کردار مرد کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ ان معاشروں میں عورت کو اعلیٰ مقام حاصل تھا۔انہوں نے کئی قسم کی مہارتیں حاصل کر لی تھیں۔ظروف سازی کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ عورتوں کی ایجاد تھی۔ اِسی طرح زراعت کی دریافت میں عورتوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

اِن اشتراکی معاشروں میں پیداوار کی تقسیم افراد کی ضروریات کے مطابق کی جاتی تھی۔ قبیلے کے معذور افراد، بزرگوں اور بچوں وغیرہ کی نگہداشت سب کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔ فوری ضرورت سے زائد پیداوار نہیں تھی اور جو کچھ پیدا ہوتا تھا وہ فوراً استعمال ہو جاتا تھا۔ لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اِس زائد پیداوار پر کس کا تصرف ہو گا۔قبیلے کے فیصلوں میں تجربہ کار بڑے بوڑھوں کا کردار یقیناًاہم ہوتا تھا لیکن یہ لوگ حکمران یا بادشاہ ہرگز نہیں تھے۔ بلکہ ان کی عملداری کی بنیاد اخلاقی تھی۔ ان کی عملداری نہ مانے جانے کی صورت میں بھی کوئی جبر یا دھونس نہیں تھی۔

اِس سماج کے بارے میں فریڈرک اینگلز اپنی کتاب ’خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ میں لکھتا ہے: ’’ہر کام نہایت حسن و خوبی کیساتھ انجام پاتا ہے جس کے لئے نہ پولیس کے کسی سپاہی کی ضرورت ہے، نہ فوج کی۔ نہ وہاں بادشاہ اور امراہیں ، نہ کوئی گورنر اور منصف وغیرہ، نہ وہاں مقدمے چلتے ہیں اور نہ کسی کو قید کی سزا دی جاتی ہے۔ سارے اختلافات اور جھگڑے وہ سب لوگ آپس میں مل کر طے کر لیتے ہیں … امورِ خانہ داری متعدد خاندانوں کے لوگ مل کر اشتراکی انداز سے چلاتے ہیں۔ زمین قبیلے کی ملکیت ہوتی ہے … ہماری طرح نظم و نسق کی ایک وسیع اور پیچیدہ مشینری کا وہاں کوئی وجود نہیں۔ جن لوگوں کو کسی معاملے سے تعلق ہوتا ہے وہ اس کو طے کر لیتے ہیں اور زیادہ تر حال یہ ہے کہ صدیوں پرانے رسم و رواج نے پہلے ہی سب کچھ طے کرکے رکھ دیا ہے۔ وہاں کوئی مفلس اور محتاج نہیں ہو سکتا کیونکہ اشتراکی گھرانے بزرگوں ، مریضوں اور جنگ کے اپاہجوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا پورا احساس رکھتے ہیں۔ سب آزاد اور برابر ہیں اور اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس وقت تک غلامی کا کہیں کوئی گزر نہیں ہے… ایسا سماج کس طرح کے مردوں اور عورتوں کو جنم دیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ گورے جو ایسے انڈینوں (Indians) سے مل سکے تھے جو ان کے اثر سے خراب نہیں ہو پائے تھے، وہ سب ان کی خودداری اور وقار نفس، ان کی صاف گوئی، ان کے کردار کی مضبوطی اور ان کی دلیری کے مداح تھے… یہ تھا انسان اور انسانی سماج طبقاتی تقسیم سے پہلے …‘‘

تاہم ایسے قدیم سماجوں کی حالت زیادہ تر دلکش نہیں ہوتی تھی۔ پیداواری قوتیں انتہائی پسماندہ تھیں۔ بعض اوقات خوراک کی انتہائی قلت پیدا ہو جاتی تھی۔ خشک سالی اور سیلابوں سے قحط بھی پیدا ہو جاتے تھے۔ موسم اور بیماریوں کے خلاف مدافعت کے وسائل انتہائی محدود تھے۔ بالخصوص بچوں میں شرح اموات آج کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ فطرت کے خلاف جدوجہد انتہائی کٹھن اور تلخ تھی۔ تاہم انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال اور جبر موجود نہیں تھا۔ افریقہ، جنوبی امریکہ اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں اور جزائر پر قدیم اشتراکی معاشروں کی مختلف شکلیں آج بھی موجود ہیں۔

سماج کی طبقات میں تقسیم

تقریباً 12 ہزار سال پہلے زراعت، یعنی جانوروں کو سدھانے اور کاشت کاری کا آغاز انسانی سماجوں میں گہری معاشی و سماجی تبدیلیوں کا موجب بنا۔ اِس عمل کو بحیثیت مجموعی ’Neolithic Revolution‘ بھی کہا جاتا ہے جو انسانی تاریخ کا پہلا عظیم انقلاب تھا اور پیداواری قوتوں میں بڑی جست کی غمازی کرتا تھا، چنانچہ جلد یا بدیر نئے پیداواری رشتوں کاجنم بھی ناگزیر تھا ۔اناج کو چنا اور بویا جانے لگا، جانوروں کی مدد سے ہل چلایا جانے لگا۔وقت کے ساتھ انسان زیادہ سے زیادہ جانوروں کا استعمال اور پودوں کی کاشت کاری سیکھتا چلا گیا۔ زراعت نے خانہ بدوشی کا خاتمہ کیا، مستقبل بستیاں آباد ہوئیں، انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور پہلی بار آبادی کی فوری ضرورت سے زیادہ پیداوار ہوئی۔ اِس زائد پیداوارپر تصرف کا سوال ہی طبقاتی تقسیم کی بنیاد بنا۔ پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ کچھ لوگ کام کرنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود کچھ کئے بنا بھی اِس زائد پیداوار پر زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن پیداواری قوتیں اِتنی ترقی یافتہ نہیں تھیں کہ ہر کوئی جسمانی مشقت سے آزادی کی اِس عیاشی سے فیض یاب ہو سکتا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر طبقاتی معاشرہ قائم ہوا۔

’’جب تک مجموعی سماجی محنت اتنی پیداوار کرتی ہے جو تمام لوگوں کی ضروریات کو بمشکل پورا کرنے سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے، تب تک سماج کے اراکین کی اکثریت کو تمام وقت یا تقریباً تمام وقت کام کرنا پڑتا ہے، تب تک یہ سماج ضرورت کے تحت طبقات میں تقسیم رہتا ہے۔ محنت کرنے والی وسیع اکثریت کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ ابھرتا ہے جو براہِ راست پیداواری محنت سے آزاد ہوتا ہے اور سماج کے عمومی معاملات سنبھالتا ہے۔ یوں (سماج کی) طبقات میں تقسیم میں محنت کی تقسیم کا قانون کارفرما ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طبقاتی تقسیم تشدد، ڈاکہ زنی، عیاری اور مکاری کے ذریعے عمل میں نہیں آتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک بار بالادست مقام حاصل کر لینے اور محنت کش طبقے کی قیمت پر اپنے اقتدار کر مستحکم کر لینے کے بعد حکمران طبقہ اپنے سماجی اقتدار کو عوام کے استحصال میں نہیں بدلتا ہے۔‘‘ ( فریڈرک اینگلز، اینٹی ڈیورنگ، 1877ء)

لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ غیر طبقاتی سے طبقاتی سماج میں یہ تبدیلی راتوں رات مکمل نہیں ہو گئی بلکہ اِس میں ہمیں سینکڑوں، حتیٰ کہ ہزاروں برسوں پر مبنی عبوری شکلیں مل سکتی ہیں۔ بہرحال نئے ابھرنے والے حکمران طبقے کو اپنی مراعات اور ملکیت کی حفاظت اور محنت کش طبقے کو دبانے کے لئے طاقت کی ضرورت تھی۔ منظم جبر کی اِسی ضرورت نے ریاست کو جنم دیا۔ مزید برآں زراعت، جو عورت کی ہی دریافت تھی، نے عورت کو تاریخی پسپائی سے دو چار کیا۔ کھینچائی کے جانوروں کی مدد سے ہل چلانا بنیادی طور پر مردوں کا کام تھا۔ اس سے عورت مجبور ہو گئی کہ مرد کے فراہم کردہ خام مال پر ہی کام کرے۔ یوں وہ پیداوار میں براہِ راست کردار سے محروم ہو گئی۔ قدیم اشتراکی سماج میں وراثت اگرچہ غیر اہم تھی، لیکن نسب عورت کی نسبت سے چلتا تھا۔ اب وراثت کا سوال پیدا ہو چکا تھا۔ یوں مرد کی نسبت سے وراثت چلنے لگی۔

اگر تاریخ کو اخلاقیات اور جذبات سے ہٹ کر سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے تو تمام تر جبر و استحصال کے باوجود غیر طبقاتی سے طبقاتی سماج میں تبدیلی ایک ترقی پسندانہ قدم تھا۔ اِس سے پیداواری قوتوں کو ترقی ملی اور تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا مراعت یافتہ طبقہ وجود میں آیا جو جسمانی مشقت سے آزاد ہو کر سوچنے اور کائنات پر غور و فکر کرنے کا کام کرسکتا تھا۔ یوں فلسفے، سائنس اور فنونِ لطیفہ کی ترقی کا آغاز ہوا۔ لیکن مراعت یافتہ طبقات کی یہ فراغت‘لاکھوں کروڑوں گمنام انسانوں کی محنت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ہیگل نے اِسی تناظر میں کہا تھا کہ انسان غلامی سے نہیں بلکہ غلامی کے ذریعے آزادی حاصل کرتا ہے۔

تاریخ میں کون کون سے طبقاتی سماج ملتے ہیں؟

تاریخ میں کئی طرح کے طبقاتی سماج نظر آتے ہیں جنہیں مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے ۔

1) غلام داری: غلام دارانہ سماج بڑے پیمانے پر غلاموں کے استحصال پر قائم تھا۔ یہ غلام عام طور پر جنگوں یا دور دراز پسماندہ قبائل پر کئے جانے والے حملوں میں ہاتھ آنے والے قیدی ہوتے تھے، آقاؤں کی ملکیت تصور ہوتے تھے اور انسان نہیں سمجھے جاتے تھے۔ غلاموں کی خرید و فروخت عام تھی۔ اِس سماج کا بنیادی طبقاتی تضاد انسانوں کی آقاؤں اور غلاموں کے درمیان تقسیم پر مبنی تھا۔ کلاسیکی غلام داری کی مثالیں قدیم یونان اور روم میں ملتی ہیں۔

2) جاگیر داری: جاگیردارانہ سماج مزارعوں کے جاگیرداروں کے ہاتھوں استحصال پر مبنی تھا۔ تاہم غلاموں کے برعکس مزارعے اگرچہ کمتر ہی سہی لیکن انسان تصور کئے جاتے تھے۔ یہ مزارعے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کام کرتے تھے اور باقی کا سارا وقت جاگیردار کی زمین پر بیگار میں محنت کرنے پر مجبور تھے۔ جاگیرداری اپنی کلاسیکی شکل میں قرونِ وسطیٰ (پانچویں سے پندرہویں صدی عیسوی) کے یورپ میں ملتی ہے۔

3) سرمایہ داری: آج ہم ایک سرمایہ دارانہ سماج میں زندہ ہیں اور یہی طرزِ پیداوار کم و بیش پوری دنیا میں رائج ہے۔ ماضی کے طبقاتی سماجوں کی طرح اِس سماج میں بھی ذرائع پیداوار ایک اقلیتی حکمران طبقے کی ملکیت میں ہیں جسے سرمایہ دار طبقہ یا ’بورژوازی‘ کہا جاتا ہے۔ آبادی کی اکثریت محنت کش مرد و خواتین (پرولتاریہ) پر مشتمل ہے جنہیں زندہ رہنے کے لئے اپنی قوت محنت سرمایہ داروں کو بیچنی پڑتی ہے۔

ایشیائی طرز پیداوار (Asiatic Mode of Production)

سماج کی مندرجہ بالا شکلیں کلاسیکی طور پر یورپی خطوں کے لئے مخصوص رہی ہیں۔ لیکن مشرقی خطوں (بالخصوص فارس، ہندوستان، چین وغیرہ) میں ہمیں سماجی ارتقا کی ایک مختلف روش نظر آتی ہے جسے مارکس نے ’ایشیائی طرزِ پیداوار‘ یا ’مشرقی استبداد‘ (Oriental Despotism) کا نام دیا تھا۔ مثلاً برصغیر میں غلام داری بطور طرزِ پیداوار کبھی بھی موجود نہیں رہی اور جاگیر داری اور سرمایہ داری کو بھی انگریز نوآبادکاروں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پیوند کیا۔یوں یہاں کے سماجوں کا طرزِ ارتقا یورپ سے یکسر مختلف تھا۔ کارل مارکس نے 1853ء تا 1858ء نیویارک ٹربیون میں ہندوستان پر اپنے مشہور مضامین میں ’ ایشیائی طرز پیداوار‘ پر کافی روشنی ڈالی۔اِن تحریروں کی روشنی میں ایشائی طرز پیداوار کا مختصر خاکہ یوں تیار کیا جا سکتا ہے:

1۔ زراعت اور دستکاری پر مبنی معیشت، جس میں محنت کی واضح تقسیم موجود تھی۔
2۔ زمین کی اشتراکی ملکیت۔
3۔ ریاست کی جانب سے تعمیراتِ عامہ (پبلک ورکس) جو زیادہ تر زراعت سے متعلقہ ہوتی تھیں اور آب پاشی کے لئے نہروں کے وسیع نظام تعمیر کئے جاتے تھے۔
4۔ مطلق العنانیت پر مبنی ریاست جس کا انتظام وسیع بیوروکریسی چلاتی تھی۔
5۔ دیہاتوں سے ٹیکس یا لگان کی وصولی کے ذریعے استحصال

ایشائی طرز پیداوار پر مبنی ریاست اپنی ساخت میں مغرب سے یکسر مختلف تھی۔ مغرب میں غلام داری یا جاگیرداری ادوار میں تشکیل پانے والی ریاست کی بنیاد نجی ملکیت پر تھی جبکہ ایشائی طرز پیداوار میں نجی ملکیت وجود نہیں رکھتی تھی۔ جیسے مارکس نے لکھا کہ اکثر ایشیائی ممالک کی طرح ہندوستان میں زمین کی اصل مالک حکومت ہی ہوتی تھی۔ یہاں پر فرد کے پاس زمین کی نجی ملکیت موجود نہ تھی تاہم زمین کا تصرف موجود تھا۔ یعنی کوئی بھی فرد دیہاتی کمیون کی مرضی سے زمین کو کاشتکاری وغیرہ کے لئے استعمال میں تو لا سکتا تھا لیکن یہ اُس کی نجی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ مارکس نے ’Grundrisse‘ میں لکھا،’’ملکیت صرف اشتراکی ملکیت کے طور پر موجود ہے… کوئی بھی فرد زمین کو محض کمیون کے ایک رکن کے طور پر بروئے کار لا سکتا ہے… ملکیت سماجی اور تصرف انفرادی ہے۔‘‘ اِسی طرح مارکس نے اپنے مضمون ’لارڈکیننگ کا اعلان اورہندوستان میں زمین کی ملکیت ‘ میں ہندوستانی دیہاتوں کے بارے میں لکھا،’’ زمین دیہاتی اداروں کی ملکیت تھی جنہیں یہ اختیار حاصل تھا کہ کاشت کے لئے اسے افراد کو الاٹ کریں۔ زمیندار اورتعلق دار سرکاری افسروں کے علاوہ او رکچھ نہ تھے جو اس لئے مقرر کئے جاتے تھے کہ گاؤں کے ذمے جو لگان ہے اسے جمع کریں اور راجہ کو ادا کر دیں ۔‘‘

مغربی سماجوں میں غلام یا مزارعے کی پیدا کردہ قدر زائد پر انفرادی آقا یا جاگیردار براہ راست قابض ہوتا تھا جبکہ ایشیائی سماجوں میں ریاست پوری آبادی کی اجتماعی پیداوار میں سے قدر زائد نچوڑتی تھی۔ اِسی قدر زائد میں سے ریاستی اہلکاروں کو اجرتیں دی جاتی تھیں۔ دیہات بڑی حد تک خود کفیل اور ایک دوسرے سے کٹے ہوئے تھے۔ مختلف حملہ آور آتے رہے اور بالائی سطح پر حکمران بدلتے رہے لیکن نیچے سے اِس طرزِ پیداوار میں کئی ہزار سال تک کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دیہاتوں کی زندگی ایک یکسانیت کا شکار رہی۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں نے اپنے اندر چھوٹی سی دنیا بسا رکھی تھی۔ پیسے اور منڈی کا کردار انتہائی محدود اور سطحی تھا۔ پیشہ وارانہ مہارتیں نسل در نسل خاندانوں میں چلتی تھیں اور انہی پیشوں کے ناموں سے ذات برادری کی باقیات یہاں آج تک نظر آتی ہیں۔ مغرب نے جس عرصے میں سرمایہ داری تک کا سفر طے کیا اس دوران یہ ایشیائی خطے ٹھہراؤ کا شکار رہے۔ آخر کار ہزاروں سالوں پر مبنی اِس جمود کو انگریز نو آباد کاروں نے توڑا اور ایشیائی طرزپیداوار کی بنیادوں کو تہس نہس کر دیا۔ لیکن نو آبادیاتی لوٹ مار اور استحصال کے اِسی عمل میں یہاں جدید صنعت، ٹرانسپورٹ اور ذرائع ابلاغ کی بنیاد بھی رکھی جس سے پرولتاریہ کا جنم ہوا، بیرونی دنیا سے روابط استوار ہوئے اور ہزاروں سالوں تک الگ تھلگ رہنے والے علاقے قریب آ گئے۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔