فاروق طارق
پچھلی قسط میں ہم نے مشرف دور میں حفیظ شیخ کے کارناموں کا تذکرہ کیا تھا جب وہ وزیر نجکاری تھے۔ آج دوسری اور آخری قسط میں ہم پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جب حفیظ شیخ وزیر خزانہ تھے اُن کے کارہائے نمایاں کا جا ئزہ لیں گے ۔
حالیہ دورِ حکومت میں کچھ دن پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے کے بعد جب حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنایا گیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی کچھ کہنے کا موقع مل گیا۔ وہ بڑے فخر سے ہر جگہ پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ دیکھیں ان کے دور کے وزیر خزانہ کو واپس بلانا پڑا ہے۔ وہ اس اقدام سے یہ بھی تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے دور کی پالیسیاں درست تھیں اسی لئے تو ان کے دور کے وزیر خزانہ کو اب مشیر بنایا گیا ہے۔
حفیظ شیخ کی واپسی پیپلز پارٹی کے لئے باعث فخر ہے یا باعث ندامت؟ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ شیخ جو پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے دوران 2010ء سے 2013ء تک وزیر خزانہ رہے، نے اس دور میں جو کارنامے سرانجام دئیے (جس میں یقینا پیپلز پارٹی کی حکومت خود بھی شریک تھی) ان کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 2013ء کے عام انتخابات میں ایک تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں 118 نشستیں جیتی تھیں جو پانچ سال کے اقتدار کے بعد کم ہو کر صرف 42 رہ گئی تھیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کل ووٹوں کا تقریباً 30 فیصد ووٹ حاصل کیا تھا۔ وزیر خزانہ اور دیگر کی برکتوں اور حرکتوں کی وجہ سے یہ ووٹ کم ہو کر 2013ء میں تقریباً 15 فیصد رہ گیا تھا۔ یعنی پیپلز پارٹی نے اپنی تاریخ میں سب سے بری انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس تباہ کن انتخابی کارکردگی میں حفیظ شیخ کو کچھ تو کریڈٹ لینا ہو گا۔ یہ اس وقت بھی شرمناک بات تھی کہ جو وزیر نجکاری مشرف دور میں لوٹ مار کا محافظ بن کر ابھرا ہو‘ اسی کو دوبارہ پیپلز پارٹی حکومت نے اپنے وزیر خزانہ کے طور پر فائز کر دیا۔ اور یہ بات اب 2019ء میں اور بھی شرمناک ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت فخر سے بتاتی پھرتی ہے کہ یہ شخص ہمارا وزیر رہا ہے جو اب تحریک انصاف کی عوام دشمن حکومت کا بھی حصہ ہے۔
نج کاری کے پہلے 17 سالوں میں یعنی 1991ء سے لے کر 2008ء تک ایک اندازے کے مطابق سرکاری شعبے کے چھ لاکھ محنت کش اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو کے بیروزگاروں کی صف میں شامل ہو گئے تھے۔ سب سے زیادہ بےروزگاری جنرل مشرف آمریت کے دور میں ہوئی جب حفیظ شیخ وزیر نج کاری تھے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے پہلے دو سالوں کے دوران چار وزرائے خزانہ تبدیل کیے تھے۔ اور پھر یہ ہیرا حفیظ شیخ ملا جو اگلے تین سال نکال گیا۔ اس دور میں حفیظ شیخ کے پلے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر وہ فخر کر سکے۔ وہ اس دور میں یہ شکایات ہی کرتا رہا کہ پیپلز پارٹی کے وزرا چاہتے ہیں کہ مزید شعبوں میں سبسڈی دی جائے اور وہ اس کی مسلسل مخالفت کرتا رہا۔ اس نے اس دور میں قرضہ جات حاصل کرنے کے لئے پورا زور لگایا (قرضے دوگنا ہو گئے)۔ یوں پاکستان کو قرضوں کے چنگل میں پھنسانے کا ایک بڑا سہراموصوف کے سر ہے۔
جب 2012ء میں حفیظ شیخ نے پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر خزانہ کے طور پہ 2960 ارب روپے کا آخری بجٹ، جسے الیکشن بجٹ بھی کہا جاتا ہے، پیش کیا تو اس نے دعویٰ کیا کہ اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ مگر اس بجٹ کے بعد 11 مئی 2013ء کو جب عام انتخابات ہوئے تو اس بجٹ کا کوئی ثمر پیپلز پارٹی کو نہ ملا بلکہ اس کے برعکس وہ تاریخی شکست سے دوچار ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے دور میں حکومتی قرضے 21.5 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھے۔ جبکہ 2000ء سے 2007ء کے دوران یہ 6.6 فیصد کی شرح سے بڑھ رہے تھے۔ یہ قرضے جو 2008ءمیں چھ ٹریلین تھے 2013ءمیں بڑھ کے 14.24 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے (اب 30 ٹریلین کو چھو رہے ہیں)۔
جولائی 2011ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 14.776 ارب ڈالر تھے جو حفیظ شیخ کی اعلیٰ کارکرگی کی وجہ سے کم ہو کر 2013ء میں 5.153 ارب ڈالر رہ گئے تھے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آو¿ٹ پیکیج مانگنا پڑا۔ اس دور میں آئی ایم ایف کو ہر سال بھاری ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ حفیظ شیخ نے پہلی مرتبہ مقامی بینکوں سے بھاری قرضے لینے کا سلسلہ بھی شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ اس دور میں قرضہ کل جی ڈی پی کے 67 فیصد تک جا پہنچا (رواں مالی سال میں اس کے 80 فیصد سے بڑھ جانے کا امکان ہے) جو کہ خود سرکاری قوانین کے مطابق زیادہ سے زیادہ 60 فیصد تک ہونا چاہئے۔
اسی دور میں سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ نیشنل ٹیکس نمبر رکھنے والے افراد کی تعداد 3.39 ملین ہے مگر ان میں سے صرف 885,999 افراد نے اپنے ریٹرن فائل کیے۔ یعنی حفیظ شیخ فائلرز کی تعداد بھی بڑھانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ یہ ریٹرن فائل کرنے والے زیادہ تر لوگ یا ادارے بھی کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔
شوکت عزیز اور حفیظ شیخ جیسے نام نہاد ٹیکنوکریٹس معاشی بدحالی پھیلانے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ یہ سامراجی اداروں کی جانب سے بھیجے جاتے ہیں لہٰذا کھل کر سرمایہ داروں کو منافع کمانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ادوار میں غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق بڑھتا ہی ہے۔ مزید دولت سامراجی اداروں کے پاس جاتی ہے اور قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی دور میں عوام کے لئے ناکام مگر امیروں اور سامراجیوں کے لئے کامیاب وزیر خزانہ ثابت ہوا تھا۔ وہ یہی کچھ اب عمران خان کے دور میں بھی کرے گا۔
عمران خان کے یہ دعوے کہ وہ ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے، مزید ٹیکس اکٹھا کریں گے، نوجوانوں کو سہولت فراہم کریں گے وغیرہ وغیرہ صرف خواب بن کے رہ جائےں گے جیسا کہ حالات پہلے ہی بتا رہے ہیں۔ حفیظ شیخ یقینی بنائے گا کہ قرضے پورے واپس کیے جائیں اور نئے قرضے پرانے قرضوں کی واپسی میں ہی صرف ہوں۔
یہ درآمد شدہ وزیر خزانہ عوام مخالف شرائط پر آئی ایم ایف سے بھاری قرضے لے گا۔ نئے ٹیکس لگائے گا۔ قومی اداروں کی نجکاری کھل کے کرنے کی ترغیب دے گا اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار تیز ہو گی۔ یہ عمران خان کی گرتی مقبولیت کو مزید گرانے کا ہی باعث بنے گا۔