دنیا

خطے کی کشیدہ صورتحال اور پاکستان ایران تعلقات

لال خان

عمران خان کے حالیہ دورہ ایران نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایسے بہت سے مسائل جو ایک طویل عرصے سے درپردہ زیر بحث تھے وہ بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ بحران زدہ معاشی کیفیت میں ایک طرف سعودی عرب اور امارات سے قرضے اور امدادی رقوم کے حصول کے لئے تو دوسری طرف آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں سے پیکیج اور سخت شرائط پر قرضے لینے کے لئے پاکستان کاامریکی-سعودی-اسرائیلی اتحاد کا حصہ بننا مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ حالیہ اسرائیلی انتخابات میں انتہا پسندصیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی مہم اور اس کی جیت میں امریکہ نواز دھڑے کا ایک کلیدی کردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے امریکہ کے سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا، ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کردیں، 1967ءسے شام کے اسرائیلی مقبوضہ گولان کے پہاڑی علاقے کو اسرائیل کا جغرافیائی حصہ قرار دیا اور پھر جس روز عمران نے دورہ کیا اس سے چند گھنٹے قبل ہی ایران کی ایلیٹ فورس پاسدارانِ انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور عین دورے والے دن 21 اپریل کو ان ممالک کو چھوٹ دینے سے انکار کردیا جو ایران سے تیل درآمد کرتے ہیں۔ ان میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی شامل ہیں۔
گو کہ ایران کیساتھ ایٹمی سمجھوتے سے روس اور یورپی ممالک نے دستبرداری سے انکار کردیا ہے لیکن ڈالر کے عالمی کرنسی ہونے اور امریکی معیشت کے دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کی وجہ سے ایران کی معیشت اور سماجی حالات پر بہت ہی نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکمرانوں نے ایران پر حملے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ اس کے جواب میں ایرانی حکمرانوں نے بھی جنگی تیاری اور سفارتی وسیاسی محاذوں پر بیان بازی تیز کردی ہے۔ انہوں نے اپنا کمانڈر انچیف بھی تبدیل کردیا ہے جس نے بیان دیا ہے کہ اگر ایران کے تیل کی برآمد اور سپلائی کو روکا گیا تو پھر خلیج ہرمز (جہاں سے دنیا کے 40 فیصد تجارتی جہاز گزرتے ہیں) کو ایرانی افواج بند کردیں گی اور کسی کا تیل بھی اس سمندری پٹی سے گزرنے نہیں دیں گے۔ اسی طرح لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ، جو پہلے سے ہی ایک طاقتور عسکری قوت ہے، کو ایرانی میزائل دیئے جانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ بیان بھی داغا گیا ہے کہ ایسے تین سو میزائل اسرائیل کے ہر شہر کو کھنڈر بنا دیں گے۔ اس تناﺅ کے عالم میں پورے خطے کی صورتحال بہت سنگین ہورہی ہے جس سے آنے والے وقت میں ایک خوفناک جنگی تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
2014ءمیں جب نواز شریف حکومت نے پاکستانی فوجوں کو یمن بھیجنے سے انکارکیا تھا تواس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اب امریکہ اور سعودی عرب‘ پاکستان کو نئے ایران دشمن اتحاد میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عمران خان کا یہ دورہ بہت ہی غیر معمولی تھا۔ پچھلے چند ہفتوں میں ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہوئے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور ایران میں فوجی اہلکاروں کے دہشت گردانہ حملوں میں مارے جانے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایران ایک بڑی فوجی طاقت ہے اور اس سے پاکستان کا کوئی بھی عسکری تصادم بہت تباہ کن مضمرات کا باعث بنے گا۔ اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود کے مطابق اوماڑا کا دہشت گردانہ حملہ ایران کے اندر سے ہوا تھاجس میں پاکستان نیوی کے اہلکار نشانہ بنائے گئے تھے۔ دوسری طرف ایرانیوں نے بھی اپنی حدود میں ہونے والے حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
بھارت اور ایران کے باہمی تعلقات میں بھی ایک طویل عرصے سے نیم گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کا بھارتی حکومت خصوصاً مودی سرکار کی امداد سے بنایا جانا اور اس کا بھارتی تجارت کے لئے استعمال ہونا ان تعلقات کا ایک ٹھوس اظہار ہے۔ کئی سالوں سے ایران-پاکستان-بھارت تیل پائپ لائن کا منصوبہ بھی جاری تھا لیکن کچھ عرصے سے امریکی دباﺅ کے تحت اس کو ٹھپ کردیا گیا ہے۔ لیکن ایرانی ملاں بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مودی کے سعودی عرب اور متحدہ امارات سے بھی اچھے تعلقات ہیں اس لئے وہ پاکستان سے مکمل طور پر بگاڑنا نہیں چاہتے۔ اسی طرح وہ مذہبی فرقہ واریت کا کارڈبھی استعمال کرنے کا اشارہ دیتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستان کی 25 فیصدآبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور ایران میں مذہبی ریاست اسی فرقے کے عقائد کے مطابق استوار کی گئی تھی۔
عمران خان کے اس دورے کو لگتا ہے پاکستانی ریاست کی حمایت حاصل ہے کیونکہ افغانستان اور بھارت سے شدید دشمنی کے تعلقات میں ایران کے ساتھ کسی قسم کا تصادم ناقابل برداشت ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے جس کو اب بند کیا جائے گا۔ اسی طرح دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے علاقوں کو ایسی کاروائیوں سے پاک کرنے کا معاہد ہ بھی کیا ہے۔ شاید عمران خان پر اس دورے کا سفارتی دبائو اور اعصابی تنائو ہی جاپان‘ جرمنی کی مشترکہ جغرافیائی سرحدکے لطیفے کا باعث بنا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب خطے کی دوسری طاقتوں اور امریکہ نواز سرکاری دھڑے کا دباﺅ بھی آئے گا۔اس کا سامنا کرنا ان حکمرانوں کے لئے بہت کٹھن ہوگا۔
داخلی عوامی بغاوتوں کے خطرے کو ٹالنے کے لئے خارجی تضادات ابھارنے کا حکمرانوں کا ہتھکنڈا بہت پرانا ہے۔ اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کے خلاف نہ صرف سنگین کرپشن کے مقدمات تھے بلکہ اس کی معاشی پالیسیوں سے اس کی لکھود پارٹی کو شکست کا سامنا تھا۔ ایسے میں نریندرا مودی اور بی جے پی کی طرح اس نے بھی مذہبی اور قومی خطرے کا واویلا کر کے یہ الیکشن جیتا۔ یہاں تک کہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں (جن کی عملی طور پر ویسے ہی کوئی حیثیت نہیں) کو روندتے ہوئے اسرائیلی آباد کاروں کی کالونیوں کو قانونی قرار دیا اور غزہ ومغربی کنارے میں عام فلسطینیوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔ لیکن لمبے عرصے میں یہی شاونزم اسرائیلی صیہونیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ اتنے جبر اور درندگی کے خلاف جو عوامی بغاوتیں اٹھتی ہیں وہ بھی بے پناہ طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہیں۔ عرب بادشاہتوں کو بھی مقامی عوام سے سنگین خطرات محسوس ہو رہے ہیں۔ اسی لئے جہاں مصر جیسے ممالک میں فوجی آمریت کا جبر شدت اختیا رکرگیا ہے وہاںعوام میں باغی رحجانات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایران میں 1979ءسے اب تک ملاں اشرافیہ کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئی ہیں۔ ان 40 سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس عرصے میں شاید ہی کوئی ایسا وقت آیا ہو جب امریکہ، عراق، سعودی عرب یا کسی بیرونی ملک یا طاقت سے ایران کا تنازعہ، تناﺅ اور تصادم نہ چل رہا ہو۔
پاکستان میں معاشی بربادی اور عوام پر ہونے والے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حملوں کی انتہا ہو رہی ہے۔ بغاوت یہاں سے بھی پھوٹ سکتی ہے۔ 2011ءکے بعد عرب خطے میں پھر سے عوامی بغاوتوں کے ریلے بہہ نکلے ہیں۔ الجزائر اور سوڈان میں جابر حکمرانوں کے تختے الٹ دیے گئے ہیں۔ مراکش میں تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ دوسرے ممالک اور معاشروں میں بھی ایک ہلچل محسوس کی جاسکتی ہے۔ جہاں یہ سرمایہ دار حکمران (جن کے لبادے چاہے مذہبی ہوں) قومی، مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگوں کے خطرات ابھار کے اپنی حاکمیت کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں وہاں طبقاتی جدوجہد کی نئی اٹھان اس نظام کو بدلنے کی کشمکش کو تیز کر رہی ہے۔ اس خطے کے عوام کی لڑائی طبقاتی ہے۔ قومی اور مذہبی جنگوں میں عام لوگوں کی محض بربادی ہی ہوتی ہے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔