عمران کامیانہ
تبدیلی اور اصلاحات کے بلند و بانگ دعووں کیساتھ برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف حکومت میں بجٹ خسارہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جاری مالی سال کے پہلے صرف نو مہینوں میں بجٹ خسارہ ‘ مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے 4.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو 1600 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ یہ خسارہ پچھلے مالی سال(جو نواز لیگ حکومت کا آخری سال تھا جس میں انہوں نے الیکشن بجٹ پیش کیا) کے پہلے نو مہینوں سے بھی 10 فیصد یا 140 ارب روپے زیادہ ہے ۔
ابھی مالی سال کو مکمل ہونے میں تین مہینے باقی ہیں جن میں اخراجات بالعموم سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ خود تحریک انصاف کے سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر نے بدھ کو قومی اسمبلی میں تسلیم کیا ہے کہ یہ خسارہ ”کافی زیادہ“ ہے جو ”نہیں ہونا چاہئے تھا“ اور مالی سال کے آخر تک جی ڈی پی کے 6.5 فیصد (2500 ارب روپے) سے بھی متجاوز ہو سکتا ہے۔ اپنی اِس تقریر میں اسد عمر پیپلز پارٹی پر حملوں کی آڑ میں دراصل نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ پر حملے کرتے نظر آئے جنہیں اسد عمر کو ہٹا کے لایا گیا ہے اور جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں ۔
برسر اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف نے معیشت کو ”ٹھیک“ کرنے کے بہت وعدے کیے تھے۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، کرپشن کا خاتمہ… نہ جانے کیا کچھ کہا گیا۔ ”بزنس فرینڈلی پالیسیاں“ لانے کے ساتھ ساتھ جوش خطابت میں ”امیروں پر ٹیکس“ لگانے کی متضاد اور مضحکہ خیز باتیں بھی کی گئیں۔ میڈیا پر سرکاری دانشوروں کی ایک یلغار اور بھرمار تھی جنہوں نے نودولتیوں کی اس پارٹی سے لوگوں کی خوش فہمیاں وابستہ کرانے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اور درمیانے طبقے کا بڑا حصہ واقعی یہ سمجھ رہا تھا کہ ”تبدیلی“ بس آنے کو ہے اور عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سب کچھ معجزاتی طور پہ ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن آٹے دال کا اصل بھاﺅ اقتدار میں آنے کے بعد پتا چلتا ہے۔ حکومتیں جس نظام میں اقتدار سنبھالتی ہیں وہی انہیں چلاتا بھی ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو اس کے تحت حکمرانی کرنے والوں کو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اصلاح پسندانہ سوچ نظام کو بدلنے کی بجائے ٹھیک کرنے پہ یقین رکھتی ہے ۔ اور ایک طبقاتی نظام کو ”ٹھیک“ کرنے کی قیمت ہمیشہ محکوم طبقات ہی ادا کرتے ہیں۔ تاریخی زوال پذیری اور بحران کا شکار نظام ٹھیک ہو بھی سکتا ہے یا نہیں‘ یہ ایک الگ بحث ہے۔
بجٹ خسارہ کہاں تک جا سکتا ہے؟
مبصرین اسد عمر کے مذکورہ بالا تخمینے کو بھی کم قرار دے رہے ہیں اور خسارے کے 7 فیصد سے بڑھ جانے کے امکانات ظاہر کر رہے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف، جو آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت کا باقاعدہ کنٹرول سنبھالنے والا ہے، کے مطابق خسارہ جی ڈی پی کے 7.2 فیصد یا 2800 ارب روپے سے زیادہ رہے گا اور اگلے مالی سال 8.7 فیصد تک چلا جائے گا جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہو گی۔ خسارے کی یہ کیفیت اِس سے پہلے صرف پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت (2008-13ء) میں دیکھی گئی تھی جب حکومت کے قرضوں میں 135 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ یعنی اُن پانچ سالوں میں قرضے دوگنا سے بھی زیادہ بڑھ گئے تھے۔
وجوہات کیا ہیں؟
آسان الفاظ میں حکومت کی آمدن اور اخراجات میں فرق کو بجٹ خسارہ کہا جاتا ہے۔ 20 اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق فیڈل بورڈ آف ریوینیو نے اپنے سالانہ ہدف کا صرف 65 فیصد پورا کیا ہے۔ اس میں سے بھی زیادہ تر بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں غریب عوام سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں کا بدعنوان سرمایہ دار طبقہ نہ ٹیکس دیتا ہے‘ نہ ہی سرمایہ داروں کی حکومتیں اپنے طبقے پر ٹیکس لگانا چاہتی ہیں۔”بزنس فرینڈلی پالیسیوں“ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں (چاہے مقامی ہوں یا ملٹی نیشنل) پر ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ ملک کی دو تہائی معیشت ویسے ہی ’سیاہ‘ ہے جو کسی سرکاری لکھت پڑھت میں نہیں آتی ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت کی مجموعی آمدن کا 90 فیصد تک عام لوگوں پر اِن ڈائریکٹ ٹیکس لگا کے حاصل کیا جاتا ہے۔ یعنی غریب آدمی ماچس کی ڈبیہ تک پہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ جبکہ حکمران طبقات کم و بیش کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔
ایک طرف آمدن کی یہ کیفیت ہے‘ دوسری طرف جاری مالی سال کے پہلے صرف چھ ماہ میں دفاعی اخراجات مختص کردہ دفاعی بجٹ سے 22 فیصد زیادہ رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بوجھ قرضوں کا ہے۔ خود حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ بجٹ کا 70 فیصد صرف دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ اور یہ دونوں ایسے شعبے ہیں جن پر اس نظام کی کوئی حکومت سوال تک نہیں اٹھا سکتی ہے۔ باقی جو کچھ بچتا ہے وہ حکومت کے انتظامی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے جس میں یہاں کی سرکاری افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشیاں اور بدقماشیاں بھی شامل ہیں۔
خسارے کے معاشی مضمرات کیا ہیں؟
خسارے کا ناگزیر نتیجہ قرضہ ہے جو لینے کے نئے ریکارڈ موجودہ حکومت قائم کر رہی ہے۔ یومیہ 14 ارب روپے کے قرضے لئے جا رہے ہیں جو پچھلی حکومت کی نسبت دو گنا ہیں۔ ان قرضوں ( جو مقامی بینکوں سے روپوں میں لیے جاتے ہیں) پر مزید سود ہے جو آنے والے دنوں میں ادا کرنے کے لئے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ ملکی معیشت نہ صرف خارجی (جہاں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو بھرنے کے لئے ڈالروں میں قرضہ لینا پڑتا ہے) بلکہ داخلی سطح پر ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے جہاں صرف سود کی ادائیگیوں کے لئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت شرح سود میں تیز اضافہ کرتے ہوئے اسے 10.75 فیصد تک لے گئی ہے اور ابھی مزید بڑھانے کے لئے پر تول رہی ہے جس سے قرضوں کا مسئلہ مزید گھمبیر ہی ہو گا۔
ایک دوسرا طریقہ جو اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے وہ نوٹ چھاپنے کا ہے۔ نوٹوں کی چھپائی کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے جس سے روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے اور افراطِ زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افراطِ زر کا ناگزیر نتیجہ پھر مہنگائی ہے جو پچھلے چھ سالوں کی بلند ترین شرح (تقریباً 10 فیصد) کو چھو رہی ہے۔ یوں عام صارفین کی قوت خرید کو کم کرنے والی یہ مہنگائی بھی عوام پر ایک طرح کا سرکاری ٹیکس ہوتی ہے۔
خسارے در خسارے اور قرضے در قرضے کی اِس کیفیت میں ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی جا رہی ہے جس سے ٹرانسپورٹ، پینے کے پانی، نکاس، تعلیم و علاج وغیرہ کا پہلے سے زبوں حال انفراسٹرکچر مزید زوال پذیری اور بربادی کا شکار ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کے ترقیاتی اخراجات معاشی سرگرمیوں کو تحریک دینے میں کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کٹوتی سے ساری معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ مظہر بھی ہم واضح طور پہ دیکھ سکتے ہیں جس میں معیشت کی اوسط شرح نمو اگلے پانچ سالوں میں صرف 2.5 فیصد تک رہنے کا تخمینہ آئی ایم ایف نے لگایا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اتنی کم شرح نمو معاشی سکڑاﺅ یا ’کرنچ‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
عوام کے لئے اِس صورتحال کے کیا معنی ہیں؟
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں عوام کے لئے موجودہ صورتحال کے معنی مزید افراطِ زر، مہنگائی، بیروزگاری اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں خساروں کا سارا بوجھ آخری تجزئیے میں محنت کشوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ ”آسٹیریٹی“ یا ”سادگی“ عوام کے لئے ہی ہوتی ہے۔ ’اخراجات میں کمی‘ انہی کی سہولیات چھین کے لائی جاتی ہے۔
آنے والے بجٹ میں حکومت 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ تعلیم و علاج کا سرکاری بجٹ، جو پہلے ہی شرمناک حد تک کم ہے، مزید گھٹایا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق موبائل فون کے ری چارج پر دوبارہ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے اور طلبہ کے وظیفے ختم کیے جا رہے ہیں۔ انتہا بے شرمی اور ڈھٹائی سے سرکاری یونیورسٹیوں کو خیرات پہ چلانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹوں اور ادویات کی سہولیات ختم کر دی گئی ہیں۔ سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پہ پنشن اور مستقل روزگار کے خاتمے، نجکاری اور چھانٹیوں کے پروگرام پہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے جس سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوں گے۔
تاہم اِن ’کڑوی گولیوں‘ اور عوام دشمن اقدامات سے بھی اِس دیوالیہ معیشت کا بحران ختم ہونے والا نہیں۔ یہ حکومت چلے نہ چلے لیکن یہ ضرور واضح ہو گیا ہے کہ اِس نظام میں رہتے ہوئے ایسی ”تبدیلی“ ہی آ سکتی ہے۔