تاریخ

یوم مئی کی تاریخ اور آج کے فرائض

فاروق طارق

پاکستان میں عام لوگوں کے علاوہ محنت کش طبقات کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ سے واقف نہیں۔ ٹریڈ یونینوں کے گنے چنے کارکنان اور رہنما کسی حد تک اس عالمی دن کی تاریخ سے آگاہ تو ہیں مگر تفصیلات سے آگہی کم ہی ہے۔ کچھ تو اسے صرف ایک چھٹی کے طور پر ہی جانتے ہیں۔ اس مضمون کا مقصد اس کمی کو کسی حد تک دور کرنا ہے۔

تاریخی پس منظر

انیسوی صدی کے اواخر میں محنت کش طبقہ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہا تھا۔ کام کے حالات برے تھے اور اکثر محنت کش 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ کام پر اکثر صنعتی حادثے ہوتے تھے اور اکثر اوقات مزدور ان حادثوں میں ہلاک بھی ہو جاتے تھے۔ جس طرح آج بھی پاکستان جیسے ممالک میں صنعتی اداروں میں ہونے والے حادثات میں مزدورں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے اندوہناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے وسط تک سوشلزم کے نظریات تیزی سے عام محنت کشوں میں مقبول ہو رہے تھے۔ مغربی ممالک میں مختلف قسم کی سوشلسٹ تنظیمیں معرض وجود میں آ رہی تھیں جو محنت کشوں کو منظم کرنے کی جستجو کرتی تھیں۔

ایسی ہی ایک امریکی تنظیم جس کا نام تھا فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اینڈ لیبر یونینز (جو بعد میں امریکن فیڈریشن آف لیبر) کہلائی نے 1884ءمیں اپنے ایک کنونشن میں منظور ہونے والی ایک قرارداد میں طے کر دیا کہ یکم مئی 1886ءکے دن سے مزدوروں کے لئے ایک دن کا کام صرف آٹھ گھنٹے پر مشتمل ہو گا۔ اور یہی ان کے قانونی اوقات کار ہوں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس مقصد کے لئے ہڑتالوں اور مظاہروں سے بھی کام لیا جائے گا۔ مئی 1885ءمیں ڈھائی لاکھ سے زیادہ محنت کش شکاگو اور دیگر امریکی شہروں میں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبہ کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔

یکم مئی اب امریکی محنت کشوں کے لئے ایک ایسا دن بن کر ابھر رہا تھا جب آٹھ گھنٹے کام کو قانونی حیثیت مل سکتی تھی۔ یکم مئی 1886ءکو امریکہ کے تین لاکھ مزدور جن کا تعلق بہت سے صنعتی اداروں سے تھا مظاہروں میں شریک ہوئے۔ مطالبہ ایک ہی تھا ”کام صرف آٹھ گھنٹے روزانہ۔“

امریکہ سے قبل آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں 1856ءمیں ”888“ کی ایک تحریک چلی تھی جس میں روزانہ کے 24 گھنٹوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا: آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے خاندانی امور یا تفریحی سرگرمیاں وغیرہ۔ اس تحریک میں کنسٹرکشن کے مستریوں اور مزدوروں نے حصہ لیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج بھی ملبورن میں اس تحریک کی یاد میں شہر کے وسط میں ایک مجسمہ موجود ہے۔

امریکی شہر شکاگو میں یکم مئی 1886ءکے روز 40,000 سے زیادہ مزدوروں نے ہڑتال شروع کر دی۔ اس روزانقلابی تقریروں نے ماحول گرما دیا۔ البرٹ پارسن، جوہان موسٹ، اگست سپائیز اور لوئی لنگ کی تقریروں نے ان رہنماﺅں کو گھر گھر مقبول کر دیا۔ ہر فرد ان کو جاننے لگ گیا۔ مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ تین مئی کو ہنگامے شروع ہو گئے۔ پولیس نے تشدد سے کام لینا شروع کیا اور لاٹھی چارج سے دو ہڑتالی مزدور شہید ہو گئے۔ لاتعداد زخمی بھی ہوئے۔

چار مئی کو اس واقعے کے خلاف مزدوروں نے ’ہے مارکیٹ‘ کے مقام پر ایک جلسے کا اعلان کیا۔ اس روز بارش شدید تھی۔ کوئی تین ہزار مزدور وہاں پہنچے۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی شریک تھے اور شکاگو کا مئیر بھی اس جلسے میں موجود تھا۔ اگست سپائیز پرجوش تقریر کر رہا تھا کہ پولیس نے دھاوا بول دیا۔ اسی دوران اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کے لئے کسی نامعلوم فرد نے پولیس وین پر ایک بم پھینک دیاجس سے ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔ پولیس کی فائرنگ سے سات مزدور بھی شہید ہو گئے اور چالیس زخمی ہو گئے۔ اس دوران مزدور اپنی سفید شرٹوں کو سرخ خون سے رنگ کر لہراتے رہے اور یوں سرخ رنگ محنت کشوں کی جدوجہد، قربانی اور عزم کا نشان بن گیا۔

پولیس نے آٹھ مزدور رہنماو¿ں کو گرفتار کیا اور ان پر قتل کا مقدمہ ڈال دیا۔ ان میں البرٹ پارسن، اگست سپائیز، سیموئل فیلڈن، اسکر نیبی، مائیکل سخواب، جارج اینگلز، ایڈولف فشر اور لوئی لنگ شامل تھے۔ اگرچہ ان میں سے صرف تین رہنما اس روز ’ہے مارکیٹ‘ میں موجود تھے۔

11 نومبر 1887ءکو پارسن، سپائیز، اینگلز اور فشر کو ملک بھر میں مظاہروں اور احتجاج کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ جبکہ لوئی لنگ نے پھانسی سے ایک روز قبل خود ہی اپنی جان لے لی۔ یہ آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کے شہدا تھے۔ جبکہ دیگر تین کو چھ چھ سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں انہیں مزدور تحریک کی قیادت کرنے پر سنائی گئی تھیں۔ مگر بہانہ بم دھماکے اور تخریب کاری کو بنایا گیا۔

پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے مزدور رہنماو¿ں نے گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے تاریخی فقرے جرات کے ساتھ کہے: ”تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکو گے!“

پھانسیوں کے اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ مقرر کیے جائیں۔ امریکہ میں بھی 1887ءمیں ہی سرکاری طور پر کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کر دئیے گئے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر دنیا بھر کے محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کیے۔

دوسری انٹرنیشنل (محنت کشوں کی عالمی تنظیم) کی 1889ءمیں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سوشلسٹ کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ یوم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔ اس اجلاس کی صدارت عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کی تھی۔ 1889ءکے بعد سے یکم مئی کا دن دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس روز محنت کش اپنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔آج کل دنیا کے 66 ممالک میں یوم مئی کے روزسرکاری چھٹی ہوتی ہے۔

آج کے حالات اور فرائض

آج سامراجی ممالک دنیا بھر میں محنت کش عوام کی محنت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ، منڈیوں کے پھیلاو¿ اور قبضوں کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ جنگوں میں مصروف ہیں اور سامراجی مالیاتی اداروں کی مسلط کردہ پالیسیوں اور معاہدوں کے ذریعے طبقاتی غلامی کے طوق کو مزید مضبوط کر دیا گیا ہے۔پاکستان کی بات کریں تو تقریباً 60 فیصد آبادی غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔

مہنگائی میں مسلسل اضافے کے باعث محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں 100 فی صد سے زائد کمی انہی مزدور دشمن پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ کم از کم تنخواہ مقرر تو ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں۔ ملک کے 80 فیصد سے زائد نجی ادارے کم از کم تنخواہ (جو پہلے ہی انتہائی قلیل اور شرمناک ہے) ادا نہیں کرتے۔قانونی طور پہ آٹھ گھنٹے کی بجائے سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔

مروجہ سیاست کی تمام پارٹیاں اور حکومتیں محنت کش طبقے کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ مراعات چھیننے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔صنعتی و مالیاتی اداروں کی نج کاری کا معاملہ ہو، جبری برطرفیاں ہوں، کم از کم تنخواہ پر عمل در آمد ہو، سوشل سکیوریٹی کا معاملہ ہو یا اداروں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کرنے کی بات ہو، ان سب کا مزدور دشمن رویہ روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے۔

صنعتی اداروں میں مخدوش صورت حال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پانچ فی صد سے بھی کم مزدوروں کے پاس تقرر نامے ہوتے ہیں۔ جبکہ بقیہ اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ جس کے باعث وہ لیبر عدالتوں یا سماجی تحفظ کے اداروں میں خود کو مزدور ثابت کرکے اپنا قانونی حق حاصل نہیں کرسکتے۔

اسی طرح صرف ایک فی صد مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہے۔ ملک کی 6 کروڑ 20 لاکھ کی ورک فورس میں سے 70 فی صد غیر دستاویزی شعبے سے وابستہ ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد گھر مزدوروں کی ہے۔ ایک کروڑ 80 لاکھ ہوم بیسڈ مزدوروں میں خواتین محنت کشوں کی تعداد ایک کروڑ 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن پیداواری عمل میں حصہ لینے والے یہ گھر مزدور قانونی طور پر محنت کش تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔

آج یکم مئی کا درس یہی ہے کہ مزدور تحریکوں، احتجاجوں اور مزاحمت کے ذریعے نہ صرف آٹھ گھنٹے روزانہ کام، کم از کم اجرت میں اضافے اور اس کی فراہمی یقینی بنانے اور محنت کشوں کے تمام دیگر حقوق حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت محنت کش طبقے کی اپنی سیاسی اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔