دنیا

کشمیر پر پاکستان کی سفارتی ٹامک ٹوئیاں: حل کیا ہے اور کیا کیا جائے؟

فاروق طارق

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کشمیر پر ”ثالثی“ کی پیش کش کی ہے اور کہاہے کہ ”صورتحال بہت نازک ہے‘ مودی اور عمران خان، دونوں میرے دوست ہیں مگر آپس میں دوست نہیں“۔ اس بیان سے ایک روز قبل امریکی ترجمان نے اس بحران کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا مگر صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

صورتحال سے نظر آتا ہے کہ امریکی سامراج کو بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے سے قبل آگاہ کر دیا گیاتھا۔ شائد یہ بھی طے تھا کہ اس کے بعد وہ ثالثی کی پیشکش کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا، 22 اگست کو عمران خان نے کہا کہ”دو ایٹمی طاقتیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے سامنے ہیں، دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہئے“۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ روزانہ ہی دنیا کے کسی نہ کسی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہیں اور کشمیر بارے اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں۔ 22 اگست کو شاہ محمود قریشی نے آئیوری کوسٹ کے وزیر خارجہ سے بھی بات کی۔ پاکستان میں شائد ایک فیصد لوگوں کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ آئیوری کوسٹ بھی ایک ملک ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ واضح ہے کہ پاکستانی حکومت نے کشمیر میں بھارتی ایکشن سے قبل کوئی تیاری نہ کی تھی۔ اب یہ سفارتی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ عمران خان کشمیر کا مقدمہ خود لڑنے کے دعویدار ہیں جبکہ انتخاب سے پہلے فرما چکے ہیں کہ مودی کی جیت کشمیر کا مسئلہ حل کر دے گی۔ یہ ہیں ان کی جانب سے مستقبل بارے اندازے جو اب بالکل الٹ ثابت ہو رہے ہیں۔

ادھر پاکستان جن پر بہت انحصار کر رہا تھا ان ممالک نے بھی پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے یا تو خاموشی اختیار کی یا بھارت کا کھل کر ساتھ دیا۔ دبئی نے تو مودی کو اپنا سب سے بڑا قومی اعزاز دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ سعودی عرب کی ریاستی تیل کمپنی’آرامکو‘ نے بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ریلائنس انڈسٹریزکے 20 فیصد حصص خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ ریلائنس کے مالک مکیش امبانی نے 12 اگست کو ممبئی میں اعلان کیا کہ سعودی سرمایہ کاری 75 ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ابھی 15 ارب ڈالر کا معاہدہ تو ہو ہی چکا ہے۔ ادھرسعودی ولی عہد کے مطابق سعودی عرب بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

تا دم ِتحریر (22 اگست 2019ء) کشمیر میں لاک ڈاؤن کو18 واں روز ہے۔ عید ِقرباں بھی گھروں میں گزری۔ تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ خوراک، ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاکی کمی بڑھتی جا رہی ہے۔ کرفیو اٹھایا ہی نہیں جا رہا۔

ترقی پسند بھارتی رہنماؤں کا تحقیقاتی وفد کشمیر میں

بھارت کی چار سماجی وسیاسی تنظیموں کے نمائندؤں نے 9 اگست سے 13 اگست تک کشمیر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد جو دس صفحات پر مشتمل رپورٹ 14 اگست کو دہلی کے انڈیا پریس کلب میں جاری کی ہے وہ اس بھارتی پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب ہے جو ہمیں ’سب اچھا‘ کی خبریں دیتا ہے۔

کویتا کرشنن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ (CPIML) کی رہنما ہیں۔ وہ اس چار رکنی وفدمیں شامل تھیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پورا کشمیر ایک کھلی جیل کی طرح نظر آرہا ہے۔ اس وفد کی بنائی دس منٹ کی ویڈیو کو پریس کلب دہلی نے چلانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس میں ایسے منظر تھے جو ان کے نزدیک بھارتی”حب الوطنی“کے منافی ہیں۔ رپورٹ میں ایک کشمیری شہری کا کمنٹ بھی قابل توجہ ہے۔ اس نے کہا:”وہ منگل سوتر ہی مودی نے توڑ ڈالا ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا تھا، اب ہم آزاد ہیں“۔

رپورٹ میں مودی حکومت کے اس پراپیگنڈے کا بھی جواب دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے سے ”غیر ترقی یافتہ“کشمیر میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ وفد نے لکھا ہے کہ”کشمیر کے دیہات شمالی بھارت کے دیہاتوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، کوئی کچا گھر نہیں، تعلیم عام ہے، جن کشمیریوں سے بھی ملے وہ تین چار زبانوں پر اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔ سوائے بھارتی جنتا پارٹی کے کشمیر ترجمان کے، انہیں ایک بھی ایسا کشمیری نہیں ملا جو مودی حکومت کے موجودہ اقدامات کی حمایت کرتا ہو۔ اندریں حالات، فوری سوال ہے کہ کیا کیا جائے؟کس طرح یہ محاصرہ ختم ہو گا اور کشمیریوں کو اپنی آواز بلند کرنے اور انہیں بھارتی حکومت کے موجودہ قبضہ بارے اپنی رائے دینے کا موقع کیسے مل سکے گا؟“

کیا کیا جائے؟

بھارت کے درجنوں صحافی’کشمیر کا سرکاری تحفظ‘ میں دورہ کر نے کے بعد یہ خبریں دے رہے ہیں کہ’سب اچھا‘ ہے جبکہ بی بی سی، مذکورہ بالاچار رکنی وفد اور کچھ دیگر ذرائع بتا رہے ہیں کہ سب اچھا کی خبریں حقائق کے منافی ہیں۔ فوری طور پر انسانی تباہی سے بچنے کا سوال سب سے اہم ہے۔ آزادی بنیادی حق ہے جس سے آئینی لحاظ سے ہی نہیں، فزیکلی بھی کشمیریوں کو محروم کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہے؟

بھارتی حکمرانوں نے تو قبضہ اور کشمیر کی تقسیم کر کے بتا دیا ہے کہ ان کے عزائم کیا ہیں؟ پاکستانی ریاست کا موقف ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“۔ مذہبی تنظیمیں بھی یہی کہتی ہیں۔ مذہبی انتہا پسند تو کشمیر کوپاکستان بنانے کے لئے متشدد اور دہشت گردی کے مختلف طریقوں سے کام کرتے رہے ہیں۔

ان دو ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کے علاوہ بھی ایک نقطہ نظر ہے جسے میڈیا یا تو چھپاتا ہے یا اُسے توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ نقطہ نظر ہے کشمیر کی مکمل آزادی: ایک آزاد ملک کی حیثیت میں زندہ رہنے کا حق۔ اس نقطہ نظر میں اس سے آگے وہ تفصیلات ہیں جو مختلف آزادی پسند گروہوں نے پیش کی ہیں‘ جنہیں یہاں طوالت سے بچنے کے لئے پیش نہیں کیا جا رہا۔

ہم پہلے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ فوری طور پر کیا ہونا چاہئے۔ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خاتمے کا آغاز تو وہاں کرفیو کے خاتمے اور عوام کے باہر آنے سے منسلک ہے۔ بھارت کو اس فوری قدم کے لئے اسی طور پر مجبور کیا جا سکتا ہے جب بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد کشمیریوں کے جمہوری حقوق کے لئے سڑکوں پر آجائے جو فی الحال انہیں دستیاب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے عوامی تحریکوں کا ابھار بھارت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کرفیو ختم کرے اور عوام کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔

بھارت میں بائیں بازو نے اس کا آغاز کیا ہوا ہے۔ ان کے لئے حالیہ انتخابات میں برے نتائج کامداوا کرنے کا یہ ایک موقع ہے کہ وہ عوام میں بائیں بازو کے خیالات کو ایک بار پھر مقبول بنا دیں جن میں ہر ظلم سے ٹکرانا اور ظلم کے جواب میں مظلوم کا ساتھ دینا اور ”ایک کا دکھ سب کا دکھ“ جیسے جذبات بنیادی ستون ہیں۔ یہی فریضہ پاکستان کی ترقی پسند قوتوں کا ہے۔ 20 اگست کو لاہور لیفٹ فرنٹ کا ’کشمیر یکجہتی مارچ‘ اس جانب ایک درست قدم ہے۔

اب بات کرتے ہیں کشمیر کی آزادی کی۔ یہ اب اقوامِ متحدہ، سیکیورٹی کونسل اور چین و پاکستان کی ریاستوں کے بس کی بات نہیں۔ بھارتی نیم سامراج (سب امپیریلزم) نے آرٹیکل 370ختم کرنے سے قبل خوب تیاری کی تھی (گو پاکستان میں تو ٹرمپ کے مسکرا کر ہاتھ ملانے کو ورلڈ کپ جیتنے سے تعبیر کر لیا گیا تھا)۔

ابھی جو تھوڑے بہت مظاہرے کشمیر کے اندر سے رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سب سے بلند آواز ”آزادی“ کی ہے۔ ”کشمیر بنے گا خود مختار“ ایک دفعہ پھر بہت مقبول نعرہ بنتا ہوا نظر آیا۔ ایک دو افراد نے پاکستان کا جھنڈا بھی اٹھایا ہوا تھا۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک بڑے جلوس میں چند افراد پاکستان کا جھنڈا اٹھا کے آ جاتے ہیں جسے پاکستان کاکنٹرولڈ میڈیا خوب نشر کرتا ہے۔ ابھی لندن میں 15 اگست کو جو بڑا مظاہرہ ہوا ہے اس میں بھی کشمیر کی’آزادی‘ کا نعرہ باقی سب نعروں پر فوقیت رکھتا تھا۔

کشمیر ایک قوم کی تعریف پر اترنے والے تمام تقاضے پورا کرتا ہے۔ ”مختلف نسلوں، ذاتوں، برادریوں، قبیلوں اور مذاہب کے لوگوں کو‘جو زمین کے ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں ان کی ایک جیسی زبان، ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی روایات ہوں، انہیں ایک قوم کہا جاتا ہے“۔

لغت میں قوم کی اس تعریف پر کشمیری پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ گو وہ تین ملکوں میں تقسیم ہیں۔ پاکستان، چین اور بھارت نے کشمیر کو تقسیم کیا ہوا ہے مگر ملکوں میں تقسیم، کشمیری قوم کی تقسیم کے مترادف نہیں ہے۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو بڑا نقصان مذہبی عناصر کے ”کشمیر بنے گا پاکستان“والے نعرے نے پہنچایا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران شروع ہونے والا یہ نعرہ بھارت کو اس تحریک کو کچلنے کا بار بار موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے قبل مقبول ترین نعرہ کشمیری عوام کے حق خودمختاری کی حمایت اور استصواب کے ذریعے کشمیری عوام کی رائے جاننے کا تھا۔

پاکستانی ریاست کشمیریوں کے لئے کوئی مثالی ریاست اس وقت ہی بن سکتی ہے جب پاکستان کے اندر میڈیا پر قدغن نہ ہو، حقیقی جمہوری آزادیاں ہوں، بات کرنے کی آزادی ہواوروہ نہ ہو جو وزیرستان میں ہو رہا ہے۔ عوام خوشحالی کی جانب گامزن ہوں۔ ایک جابر ریاست دوسری قوم کی آزادی کی بات کرتے اچھی نہیں لگتی۔

کشمیر کی آزادی مسلح جدوجہد سے بھی نہیں جڑی ہوئی۔ بھارتی ظلم وستم بدلے کی آگ سلگاتاہے۔ بندوق کا جواب بندوق سے دینے کا جذبہ ابھرتا ہے مگر تاریخ کا یہ سبق ہے کہ مسلح جدوجہد وقتی فتح سے ہی ہمکنار کر سکتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں عوام کی عوامی تحریک، جلسے جلوس، دھرنے، ہڑتالیں اور پہیہ جام ہی مضبوط ترین ظالم ریاستوں کو شکست سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

کشمیر کا حل کشمیریوں کے پاس ہے، کسی اور کے پاس نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر سے افواج کو خارج کیا جائے۔ کشمیریوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائے‘جو کشمیر کے ہر حصے میں ایک جمہوری ریفرنڈم کا انعقاد کرے اور کشمیریوں سے ہی رائے لی جائے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر ایک آزاد کشمیر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب کشمیر کی ہر جانب ایک بڑی عوامی بغاوت کشمیریوں کو ان کے اپنے مستقبل کو بنانے کا اختیار دینے پر ہر ملک کو مجبور کر دے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔