تاریخ

کشمیر کہانی

طارق علی

طارق علی کی کتاب ’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘ سے اقتباس۔ یہ کتاب بارہ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اردو میں اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔

[نیو یارک کی] ایٹتھ ایونیو پر کھانے کی تلاش میں چہل قدمی کرتے ہوئے عمارت نمبر 41,40 کی دیوار پر لگے ایک جھلملاتے نیون بورڈ نے میرے قدم روک لئے: K-A-S-H-M-I-R ساتھ ہی ایک تیر کا نشان بنا تھا، یہ تیر کا نشان البتہ جھل مل نہیں کر رہا تھا، یہ تیر کا نشان تہہ خانے میں موجود فاسٹ فوڈ کی دعوت دے رہا تھا۔ میں نے کھانے کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ سادہ سی طعام گاہ کے ساتھ ہی لکڑی کا ایک چبوترہ بنا تھا اور دیوار پر نصب پتھر کی سل کے مطابق یہ جناح ہال تھا جس کا افتتاح 1996ء میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے کیا تھا۔ میں نے پتھر کی سل تلے کیش ڈیسک پر بیٹھی نوجوان کشمیری خاتون سے پوچھا آیا کہ یہ وہی نواز شریف ہے جو ان دنوں کرپشن اور اقدام ِقتل کے الزام میں جیل کے اندر ہے۔ وہ مسکرائی مگر کوئی جواب نہ دیا البتہ اس نے ’ہال‘ کی طرف آنکھیں گھمائیں جہاں ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ جگہ لگ بھگ پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ بیس کے لگ بھگ جنوب ایشیائی مرد اور ایک سفید فام عورت۔ اوپری میز روایتی کھلی شلواروں اور لمبی قمیضوں میں ملبوس درجہ بندی کے لحاظ سے داڑھیوں کے قبضے میں تھی۔ ان میں سے ایک پر مجھے بے اختیار ترس آیا۔ خوفناک دھوبی خارش کا شکار، پرائیویٹ جہاد میںمصروف، ساری شام وہ خصیوں پر خارش کرتا رہا۔

منبر پر ایک کلین شیو امریکی پوری روانی میں نظر آ رہا تھا۔ حرکات و سکنات اور متعین گفتار سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس سیاستدان کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے۔ پتہ چلا وہ ’کشمیری عوام کا دوست‘، ڈیموکریٹک رُکنِ کانگرس ہے۔ وہ حال ہی میں کشمیر کا دورہ کر کے آیا تھا، وہاں کے مصائب دیکھ کر اس پر ’گہرا اثر‘ ہوا اور اب وہ اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ ’مہذب عالمی قیادت کو یہ مسئلہ ضرور اُٹھانا چاہئے‘۔ داڑھیوں نے زور دار طریقے سے ہاں میں ہاں ملائی، اس موقع پر یقینا کابل اور کوسوو کو ’مہذب قیادت‘ سے ملنے والی مدد ذہن میں ضرور تازہ ہوئی ہو گی۔ رُکنِ کانگرس نے تھوڑی دیر کے لئے توقف کیا، وہ لوگوں کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا: انسان دوست جنگ کی بجائے ایک غیر رسمی کیمپ ڈیوڈ کی پیش کش کی جا رہی تھی۔ ’حتیٰ کہ امریکہ کا ہونا بھی لازمی نہیں‘ اس نے بات جاری رکھی۔ وہ کوئی مہان آدمی بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے نیلسن منڈیلا…….. یا بل کلنٹن‘۔

لگتا تھا داڑھیاں قطعاً متاثر نہیں ہوئیں۔ حاضرین میں چند ہی لوگ تھے جو باریش نہیں تھے، ان میں سے ایک کھڑا ہو کررُکنِ کانگرس سے مخاطب ہوا: ’برائے مہربانی! ہمارے خدشات دور کیجئے۔ افغانستان میں ہم نے سرخ فوج کو شکست دینے میں مدد دی۔ ان دنوں آپ کو ہماری ضرورت تھی اور ہم پوری طرح سے آپ کے وفادار تھے۔ اب آپ نے بھارت کی خاطر ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ مسٹر کلنٹن کشمیر میں انسانی حقوق کی بجائے بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا پرانے دوستوں سے ایسا سلوک روا رکھناچاہیئے؟‘

رُکنِ کانگرس نے ہمدردانہ آہ وبکا کی، حتیٰ کہ ’کشمیر میں انسا نی حقوق پر زیادہ جوش کا مظاہرہ‘ نہ کرنے پر کلنٹن کی سرزنش کا بھی وعدہ کیا۔ اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک داڑھی نے کھڑے ہو کرپھر سوال کیا کہ امریکہ نے ان سے دغا کیوں کیا۔ سوال کے دہرائے جانے پر رُکنِ کانگرس خاصا چیں بجبیں ہوا۔ اس وار کا جواب اس نے اس شکایت کی صورت میں دیا کہ حاضرین میں خواتین موجود نہیں ہیں۔ حاضرین کی بیویاں اور بیٹیاں اجلاس میں کیوں نہیں آئیں؟ باریش چہرے پھر قطعاً متاثر نہ ہوئے۔ مجھے ہوا خوری کی طلب ہونے لگی تو میں نے باہر جانے کا سوچا۔ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ رُکنِ کانگرس نے ایک مرتبہ پھر رُخ بدلا اور اب وہ اس وادی کے بے مثال حسن کی تعریف کر رہا تھاجس کے دورے سے ابھی وہ حال ہی میں واپس آیا تھا۔

بھاڑ میں گیا حسن، میں نے سوچا، قتل و غارت تو روکو۔ کیا رُکنِ کانگرس یا وہاں موجود داڑھیاں کشمیر کے ہنگامہ خیز اسلامی و قبل از اسلام ماضی بارے کچھ جانتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ مغل بادشاہو ں نے کبھی بھی سلطنت کی تعمیر مذہب کی بنیاد پرنہیں کی تھی؟ کیا وہ ان جری خواتین بارے جانتے ہیں کہ جو اگلے وقتوں میں حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہیں یا یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے معمولی سی رقم کے عوض کا ہے کو کشمیر ایک کرپٹ مقامی راجے کے ہاتھوں بیچ ڈالا تھا؟ اور یہ کہ یہ سارا معاملہ اس بُرے حال کو کیوں پہنچا؟ کیا داڑھیاں واقعی یہ سمجھتی ہیں کہ ایمپائر مداخلت کر کے سری نگرکو سراجیو میں بدل دے گی جس پر مغربی فوجی دستوں کا قبضہ ہو گا جبکہ چین اور بھارت خاموش کھڑے تماشا دیکھتے رہیں گے؟ یا ان کا خیال ہے کہ ایک روز ایک مکمل باریش پاکستان ایٹمی میزائلوں کے ذریعے انہیں آزاد کروا لے گا؟

مغل شہنشاہ جہانگیر  1622ء میں اپنی یاد اشت میں رقم طراز ہے:’کشمیر میں عمارتیں لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔ وہ دو، تین یا چار منزلہ عمارت بناتے ہیں اور چھت پر مٹی بچھا دیتے ہیں، وہ سیاہ گل لالہ لگاتے ہیں جو سالہا سال بہار آنے پر کھل اُٹھتے ہیں اور ان کی خوب صورتی بس کیا کہئے۔ یہ روایت خاص کشمیریوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اب کے برس محل کے چھوٹے سے دالان اور سب سے بڑی مسجد کی چھت پر گل لالہ بکثرت پائے گئے…….. کشمیر کے خطوں میں ان گنت پھول پائے جاتے ہیں‘۔ کشمیر کی جھیلوں، آبشاروں اور گلاب و یاسمین کے پھولوں کا جائزہ لے چکا تو اس نے کشمیر بارے کہا:’یہ وہ تصویر ہے جسے مصور تقدیر نے تخلیق کے قلم سے بنایا ہے‘۔

کشمیر پر پہلی بار آٹھویں صدی میں مسلما نوں نے چڑھائی کی مگر انہیں ہمالیہ کے ہاتھوں ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا۔ سپاہِ رسول کے لےے پہاڑوں کی جنوبی ڈھلوانیں عبور کرنا بھی ناممکن ثابت ہوا۔ فتح اچانک پانچ صدیوں بعد ایک علاقائی سازش کے نتیجے میں نصیب ہوئی۔ ہمسایہ ریاست لداخ کا بدھ سردار رنچنا جس نے بغاوت کی تھی، کشمیر میں پناہ حاصل کرنے آیا تھا اور یہیں اس نے دلنشیں نام والے صوفی یعنی بلبل شاہ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ رنچنا نے تو کوئی بھی مذہب قبول کر لیا ہوتا مگر اسلام قبول کرنے کی وجہ ترک لشکریوں پر مشتمل اس کا شاہی نگران دستہ تھا۔

ترک لشکری اپنے ہم مذہب کے حق میں بخوشی وفاداری بدلنے پر تیار تھے۔ یہ وفاداری البتہ صرف نئے حکمران کی حد تک محدود تھی نہ کہ نسل در نسل چنانچہ جب رنچنا کا انتقال ہوا تو لشکریوں کے سردار شاہ میر نے عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی اور یوں کشمیر میں پہلے مسلم شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ اس شاہی خاندان کا اقتدار سات سو سال تک قائم رہا۔

ہاں البتہ عوام اتنی آسانی سے نہیں ڈگمگائے اور بزور بازو تبدیلی مذہب کی حکمت عملی کے باوجود پندرھویں صدی کے اواخر میں زین العابدین کے عہد اختتام میںکہیں جا کر کشمیری اکثریت نے دائرہ اسلام میں قدم رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ زین العابدین ایک زبردست حکمران تھا جس نے ہندوﺅں کو زبردستی مسلمان بنانے پر پابندی لگا کر یہ حکم جاری کیا کہ زبردستی مسلمان بنائے جانے والے اپنے پرانے مذہب سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس نے ہندوﺅں کو مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ اپنے ان مندروں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں جو اس کے والد کے دور میں گرا دئےے گئے تھے۔ مختلف مذہبی ولسانی گروہوں اندر ازدواج باہمی پر تو ہنوز پابندی ہی تھی مگر انہوں نے ملنساری سے ساتھ ساتھ رہنے کا ڈھب سیکھ لیا۔ زین العابدین نے ایران اور وسطی ایشیا طائفے بھیجے تاکہ اس کی رعایا جلد سازی، لکڑی سازی، قالین بافی اور شال بننے کا ہنر سیکھ سکیں اور یوں شال سازی کی بنیاد پڑی جس کے لےے کشمیر مشہور ہے۔ اس کا عہد ختم ہوتے ہوتے آبادی کی ایک بڑی اکثریت اپنی مرضی سے حلقہ بگوش اسلام ہو چکی تھی اور جب سے 85-15 کا ہندو مسلم تناسب کافی حد تک برقرار ہے۔

زین العابدین کی وفات کے بعد اس شاہی خاندان کو زوال آنے لگا۔ وراثت کے جھگڑوں، نااہل حکمرانوں اور اشرافیہ کی نہ ختم ہونیوالی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ نئے سرے سے کشمیر پر یورشوں کا دور شروع ہو گیا۔ آخر کار سولہویں صدی کے اواخر میں مغلوں کے قبضے کی صورت لوگوں کی اکثریت نے سکھ کا سانس لیا۔ جاگیرداروں کی جگہ متعین کئے گئے مغل اہل کاروں نے تجارت، شال سازی اور زراعت کو ازسرنو منظم کر کے ملک کو بہتر انداز سے چلایا۔ دوسری جانب البتہ کشمیری شاعر، مصور اور کاتب مقامی سرپرستی سے محروم ہو گئے اور انہوں نے روز گار کی تلاش میں دلی اور لاہور میں مغل درباروں کا رُخ کیا اور یوں کشمیر کی ثقافتی زندگی بھی ساتھ ہی لے گئے۔

کشمیری ثقافت کا غائب ہونا اس کارن بھی بہت بھاری ثابت ہوا کہ تسخیر کشمیر اس وقت ظہور پذیر ہوئی جب کشمیری دربار ایک دم سے پھلنے پھولنے لگا تھا۔ سلطان یوسف شاہ کی بیوی زونی تسان دھرنامی گاﺅں کی رہنے والی تھی اور اس کی خوب صورت آواز سے مسحور ہو کر ایک صوفی نے اسے اپنا لیا تھا۔ اس صوفی کی زیر نگرانی زونی نے فارسی زبان سیکھی اور خود سے گیت لکھنے لگی۔ ایک روز یوسف شاہ اپنے لاﺅ لشکر سمیت جا رہا تھا کہ کھیتوں میں اس کی آواز سُن کر وہ بھی مبہوت ہو گیا۔ وہ زونی کو اپنے ساتھ دربار لے آیا اور شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ یوں زونی ملکہ بن کر محل تک پہنچی اور حبہ خاتون (محبت کی جانے والی عورت) کا لقب اختیار کیا۔ وہ کہتی ہے:

میں کھیلنے کودنے کے لئے گھر سے نکلی مگر واپس نہ آئی
جب تک کہ سورج غروب نہ ہوگیا۔
میں اپنے رخ پر نقاب ڈالے ہجوم سے گزری
مگر لوگ پھر بھی میری دید کے اشتیاق میں جمع ہوگئے
اور جب سورج غروب ہوگیا
تارک الدنیا زاہد جنگلوں سے نکل آئے

حبہ خاتون نے کشمیری زبان کو ادب میں ڈھالا اور فارسی وہندوستانی طرز موسیقی کی حوصلہ افزائی کی۔ اس نے خواتین کو من مرضی کے مطابق بناﺅ سنگھار کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ چہرے اور ہاتھوں پر مخصوص رنگوں سے نقش گودنے کی پرانی مساوانہ روایت کو زندہ کیا۔ ملاں آگ بگولہ ہو رہے تھے۔ حبہ خاتون میں انہیں شیطان ابلیس اور مرتدبدکار صوفیوں کی مشترکہ جھلک نظر آتی تھی۔ جب تک یوسف شاہ تخت پر براجمان رہا، حبہ خاتون پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا۔ وہ ملاﺅں کے ڈھونگ کا ٹھٹہ اڑاتی، اسلام کی صوفیانہ روایت کا دفاع کرتی اور خود کو ایسے پھول سے تشبیہہ دیتی جو زرخیز مٹی میں خوب پھلتا پھولتا ہے اور جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں۔

1583ء میں حبہ خاتون ملکہ تھی جب مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے پسندیدہ جرنیل کو سلطنت کشمیر پر قبضہ کرنے بھیجا۔ کوئی لڑائی نہیں ہوئی: یوسف شاہ نے بغیر کسی کش مکش کے مغل لشکر کے سامنے ہتھیار ڈال دئےے، اس کا فقط یہ مطالبہ تھا کہ اسے تخت نشین رہنے دیا جائے اور سکوں پر اس کی شبیہہ ثبت ہونی چاہئے۔ اس کے مطالبات ماننے کی بجائے اسے گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ یوسف شاہ کی غداری پر آگ بگولہ کشمیری اشرافیہ نے اس کے بیٹے یعقوب شاہ کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ ایک کمزور اور غیر معتدل نوجوان ثابت ہوا جس نے شیعہ سنی علما کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا اور کچھ ہی عرصہ بعد اکبر نے ایک بڑا لشکر روانہ کیا جس نے 1588ء کی گرمیوں میں کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ اسی سال جاڑے میں شہنشاہ وادی کی رعنائیوں کا نظارہ کرنے یہاں آیا۔

خاوند کی جلا وطنی اور اکبر کے کشمیر پر قبضے کے بعد حبہ خاتون کے حالات ڈرامائی انداز میں بدل گئے۔ سگندا اور دیدا کے برعکس، جونویں صدی اندر تخت نشیں ہونیوالی دو طاقتور ملکائیں تھیں، حبہ خاتون کو محل سے نکال دیا گیا۔ پہلے پہل تو اس نے صوفیوں کے ہاں پناہ لی لیکن پھر وہ گاﺅں گاﺅں گھومنے لگی اور مجبور لوگوں کے دکھوں کو اپنے گیتوں سے آواز دینے لگی۔

اس بارے کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں کہ اس کا انتقال کب اور کہاں ہوا…. گزشتہ صدی میں ایک قبر دریافت ہوئی تھی جس بارے خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ اس کی قبر ہے…. مگر آج بھی جہاد پر جانے والے رضا کاروں اور بھارتی فوج کی بھینٹ چڑھنے والوں کا ماتم، کشمیری خواتین حبہ خاتون کے شعروں سے کرتی ہیں:

میرے مسکن کا پتہ کس نے دیا اسے؟
کیوں چھوڑ دیا رے موہے تڑپنے کے لئے؟
میں بھاگ جلی تڑپوں اس کے لئے
وہ جو میرے جھمکے ایسا من موہنا ہے
اس نے مجھے کھڑکی سے دیکھا
اور میرا دل بے قرار کر دیا
میں بھاگ جلی تڑپوں اس کے لئے
اس نے چھت کے روزن سے مجھے دیکھا
کسی پرندے کی طرح میری توجہ حاصل کرنے کی خاطر گایا
اور دبے قدموں نظروں سے اوجھل ہوگیا:
میں بھاگ جلی تڑپوں اس کے لئے
اس نے پانی بھرتے مجھے دیکھا
میں شرما کر گلاب بن گئی
میرا جسم میری روح محبت سے جلنے لگے:
میں بھاگ جلی تڑپوں اس کے لئے
اس نے سحر کی دم توڑتی چاندنی میں مجھے دیکھا
دبے قدموں آکر مجھے جکڑ لیا
اس نے ایسا کیوں کیا؟
میں بھاگ جلی تڑپوں اس کے لئے

حبہ خاتون کا تعلق صوفیانہ تعلیمات سے متاثر، قبل از اسلام معمولات کی آمیزش سے رقیق بنائی گئی روایت سے تھا۔ کشمیر کے دیہاتوں میں یہ روایت آج بھی مضبوط ہے اور اسی کا اثر ہے کہ مذہب کی سخت گیر شکلوں سے کشمیر والے بے اعتنائی برتتے ہیں۔

مغل شہنشاہ اپنی نئی ریاست کی طرف کھنچے چلے آئے۔ اکبر کے بیٹے جہانگیر کے دل سے یہاں آکر موت کا خوف جاتا رہا کہ جنت ہی کشمیر سے ماورا ہو سکتی تھی۔

ادھر معاملات حکومت اس کی بیوی اور برادر نسبتی کے ہاتھ میں تھے اور ادھر وہ خود اس بات پر خوش تھا کہ اس کی پنجاب کے میدانوں سے جان چھوٹی ہوئی ہے، وہ چرس پیتا، کشمیری انگور کے مشروب جانچتا اورقدرتی ندیوں کے گرد باغات لگوانے کی منصوبہ بندی اسی طرح سے کرتا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا منظر ندیوں کے بہتے پانی میں دیکھا جا سکے۔ ایک مشہور فارسی شعر کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے کہا:

گرجنت بروئے زمیں است
ہمیں است ہمیں است و ہمیں است

اٹھارویں صدی آتے آتے مغل سلطنت ہولے ہولے اپنے زوال کی طرف جا رہی تھی اور کشمیری اشرافیہ نے افغانستان کے بے رحم بادشاہ احمد شاہ درانی کو بلاوا بھیجا کہ وہ آکر ان کا ملک آزاد کرائے۔ درانی نے 1752ء میں درخواست قبول کی، لگان دوگنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے مورچہ بند شیعہ اقلیت پر بھرپور تعصب کے ساتھ وہ ظلم ڈھائے کہ اشرافیہ کانپ کر رہ گئی۔ پچاس سالہ افغان دور حکومت میں جابجا شیعہ سنی فسادات ہوتے رہے۔

ابھی تو اور بھی برا وقت آنے والا تھا۔ 1819ء میں سکھوں کے کرشماتی رہنما رنجیت سنگھ کے سپاہیوں نے سری نگری پر قبضہ کر لیا جبکہ شمالی ہند میں وہ پہلے ہی فتح حاصل کر چکے تھے، سکھوں کو کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سکھوں کے ستائیس سالہ عہد حکومت کو کشمیری تاریخ دان اپنے ملک پر نازل ہونے والی سب سے بڑی آفت قرار دیتے ہیں۔ سری نگر کی جامعہ مسجد پر تالہ ڈال دیا گیا جبکہ باقی مسجدیں ریاستی قبضے میں لے لی گئیں، گاﺅ ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ لگان میں ناقابلِ برداشت اضافہ کر دیا گیا…. مغلوں کے برعکس رنجیت نے غریبوں پر لگان لگایا۔ بھوک کا دور دورہ ہوا تو بہت بڑی آبادی ہجرت کر گئی۔ کشمیری پنجاب کے شہروں کی طرف فرار ہو گئے۔ امرتسر، لاہور اور راولپنڈی کشمیری حیات و ثقافت کے نئے مرکز بن گئے (اس کشمیری ریلے کی آمد سے جومثبت اثرات مرتب ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ کشمیری باورچیوں نے مقامی کھانوں کو بہت بہتر بنا دیا)۔

سکھ عہدِ اقتدار زیادہ عرصہ نہ چل سکا: نئے حکمرانوں کی آمد آمد تھی۔ تجارتی سرمایہ داری کی تاریخ کے اس منصوبے نے ہندوستان کی زمین پر قدم رکھ دئےے تھے جسے اگر کامیاب ترین منصوبہ قرار دیا جائے تو ایسا غلط نہ ہو گا۔ ولندیزی اور برطانوی سلطنت کی جانب سے عطا کی گئی نیم خودمختاری ___ یعنی اپنی فوج رکھنے کا حق___ کے باعث ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں اپنے مرکز سے تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی اور 1757ء میںجنگ پلاسی کے بعد پورے بنگال پر قابض ہو گئی۔ چند سال کے عرصے میں دہلی کے قلعے میںبیٹھا مغل شہنشاہ کمپنی کا پنشن خوار بن چکا تھا اور کمپنی کی فوجیں مغرب کی طرف بڑھی چلی جا رہی تھیں جہاں وہ پنجاب کو سکھوں سے چھین لینا چاہتی تھیں۔ 1846ء میں ہونے والی پہلی اینگلو سکھ لڑائی میں کمپنی فتح مند رہی اور معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیر کمپنی کو مل گیا مگر کشمیر میں موجود افراتفری کے خوف سے کمپنی نے اسے فوراً پچھتر لاکھ روپے کے عوض ہمسایہ ریاست جموں کے ڈوگرہ حکمران کے ہاتھ بیج ڈالا جس نے یہاں مزید ٹیکس نافذ کر دئےے۔

1857ء کی سرکشی کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ لندن کا براہ راست اقتدار قائم ہو گیا تو کشمیر اور دیگر دیسی ریاستوں میں اصل طاقت برٹش ریذیڈنٹ کو حاصل ہو گئی جوعموماً ہیلی بری کالج کا تازہ تازہ فارغ التحصیل ہوتا اورسلطنت کی بند کھاڑی میں میعاد کار آموزی کی خاطر آیا ہوتا۔

ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں کشمیر پر بہت کٹھن گزری۔ مغل ریاست کے انہدام کے بعد کسانوں پر ایک مرتبہ پھر لگان لاگو کر دیا گیا اور کسان ہاری بن کر رہ گئے۔ کسانوں کی حالت زار اجاگر کرنے کے لئے 1920ء کی دہائی میں کشمیری دانشور ایک واقعہ، جس کی تصدیق گو ممکن نہیں، سنایا کرتے تھے جس کا تعلق مہاراجہ کی خریدی ہوئی نئی کیڈلیک کا رسے تھا۔ مہاراجہ گاڑی پر سوار پہل گام پہنچے تو مہاراجہ کے شیدائی کسان گاڑی کے گرد جمع ہو گئے اور اس کے آگے تازہ گھاس ڈالنے لگے۔ مہاراجہ نے ان کی موجودگی کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انہیں اجازت دیدی کہ وہ گاڑی کو چھو سکتے ہیں۔ کچھ کسان تھے کہ آہ وبکاکرنے لگے۔ ان کے بادشاہ نے پوچھا کہ تم رو کیوں رہے ہو۔ ایک نے جواب دیا: ہم فکر مند ہو رہے ہیں کہ آپ کی یہ نئی سواری گھاس نہیں چر رہی۔

بیسویں صدی نئی اقدار کے ہمراہ وادی میں داخل ہوئی۔ یہ اقدار تھیں: بدیسی حکمرانوں سے آزادی، مزاحمت، ٹریڈ یونین بنانے کا حق حتیٰ کہ سوشلزم۔ دہلی اور لاہور سے نوجوان کشمیری تعلیم حاصل کر کے اس مصمم ارادے کے ساتھ لوٹتے کہ وہ اپنے ملک کو ڈوگرہ مہاراجے اور اس کے چنگل سے آزاد کروا کر رہیں گے۔ مسلم فلسفی اور شاعر اقبال، جو خود بھی کشمیری النسل تھے، 1921ء میں سری نگر سے لوٹے تو ایک باغیانہ شعر کہاجو پورے ملک میں دہرایا جانے لگا:

سرما کی ہواﺅں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہُنر جس کا امیروں کو دوشالہ

یہ 1924ء کا موسم بہار تھا جب کشمیری مزدوروں نے پہلی بار ہڑتال کی۔ ریاستی ملکیت میں چلنے والی سلک فیکٹری کے پانچ ہزار مزدور تنخواہوں میں اضافے اور بھتہ خور گروہ چلانے والے کلرک کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انتظامیہ نے تنخواہ میں معمولی اضافہ تو مان لیا مگر احتجاج کرنے والے رہنماﺅں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاریوں کے خلاف مزدوروں نے ہڑتال کر دی۔ برٹش ریذیڈنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ چرس کے نشے میں دھت مہاراجہ پرتاب سنگھ نے وہاں فوجی دستے بھیج دیئے۔ ہڑتال کے پہرے پربیٹھے ہڑتالیوں پر زبردست تشدد کیا گیا، رہنماﺅں کو موقع پر ہی نوکری سے نکال دیا گیا جبکہ مرکزی رہنما کو گرفتار کر کے اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ سلاخوں کے پیچھے ہی دم توڑ گیا۔

چند ماہ بعد چند انتہائی قدامت پسند مسلم معززین نے برطانوی وائسرائے لارڈ ریڈنگ کے نام ایک مراسلہ بھیجا جس میں جبر وتشدد کی مذمت کی گئی:

فوج بلالی گئی اور بے چارے بے یارومدد گار، غیر مسلح اور پُر امن مزدوروں پر نیزوں، برچھیوں اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کر دیا گیا اور انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا___ مسلمانان کشمیر آج بہت بُرے حالات کا شکار ہیں۔ ان کی تعلیم سے افسوسناک حد تک اعتنا برتا جاتا ہے۔ گو وہ آبادی کا 96 فیصد ہیں مگر مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 0.8 فیصدہے۔ اب تک ریاست ہمارے مطالبات اور ہماری شکایات پر بے رُخی کااظہار کرتی آئی ہے مگر صبر کی ایک حد ہوتی ہے اور برداشت کا مادہ آخر ختم ہو جاتا ہے۔ وائسرائے نے یہ عرضداشت مہاراجہ کو بھجوا دی۔ مہاراجہ بہت سیخ پا ہوا۔ وہ ’بغاوت پھیلانے والوں‘ کو گولی مار دینا چاہتا تھا مگر ریذیڈنت بہادر آڑے آئے۔ ازالے کے طور پر اس نے عرضداشت کے محرک سعدالدین شال کی فوری وطن بدری کے احکامات جاری کئے۔ کچھ سالوں بعد جب مہاراجہ کے مرنے پر اس کا بھتیجا ہری سنگھ اس کی جگہ تخت نشین ہوا تو بھی صورت حال میںکوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ برطانوی تائید یافتہ کشمیرکا نیا وزیرِ اعلیٰ البیون بیز جی حالات سے سخت نالاں تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ وہ معمولی نوعیت کی اصلاحات لاگو کرنے سے بھی قاصر ہے تو اس نے استعفیٰ دیدیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ ناخواندہ، غربت کا مارا اور بدترین حالات زندگی کا شکار دیہاتوں میں زندگی گزار رہا ہے اور ان پر یوں حکومت کی جاتی ہے جیسے باقاعدہ بھیڑوں کے غول کو ہانکا جاتا ہے۔

اپریل 1931ء میں پولیس جموں کی مسجد میں گھس گئی اور جمعہ کا خطبہ روک دیا۔ پولیس سربراہ کا دعویٰ تھا کہ قرآن میں موسیٰ اور فرعون کاحوالہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ حرکت بیوقوفی کی انتہا تھی نتیجتاً احتجاج کی ایک نئی لہر چل پڑی۔ جون میں سری نگر کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع ہوا جس میں مقامی و نوآبادیاتی جبر کے خلاف جدوجہد کی قیادت کے لےے عوامی رائے سے گیارہ نمائندوں کا انتخاب کیا گیا۔ ان میں ایک شیخ عبداﷲ بھی تھے۔ شالوں کی تجارت کرنے والے تاجر کے اس بیٹے نے آنے والی نصف صدی کشمیر کے منظر پر حاوی رہنا تھا۔

اس ریلی میں عبدالقادر نامی ایک مقرر، جو نسبتاً کم معروف تھا اور کسی یورپی خاندان کا اردلی تھا، اس بات پر گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ’خون چوسنے والا شاہی خاندان‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہماری عوام کی تمام توانائی اور تمام وسائل ہڑپ کر لئے ہیں۔ قادر پر مقدمے کی سماعت کے پہلے روز ہزاروں لوگ جیل کے باہر جمع ہو گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ انہیں مقدمے کی کارروائی دیکھنے کا مواقع فراہم کیا جائے۔ پولیس نے گولی چلا دی اور اکیس لوگ مار ڈالے۔ اگلے روز شیخ عبداﷲ اور دیگر سیاسی رہنماﺅں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی لمحے کشمیری قوم پرستی کا جنم ہوا۔

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔