فاروق سلہریا
پوری دنیا میں جنگل سکڑ رہے ہیں مگرکیوبا میں پھیل رہے ہیں۔ کیوبا کی مثال یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ معاشی ترقی کے لئے ماحول تباہ کرنا ضروری نہیں۔
کیوبا کے معروف اخبار گرینما میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے سال کیوبا کے جنگلات میں 22,000 ہیکٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رقبہ ملک کے کل زمینی رقبے کا 0.26 فیصد بنتا ہے۔
1959ء میں انقلاب ِکیوبا کے وقت جنگلات ملک کے 13 فیصد حصے پر محیط تھے۔ اب یہ رقبہ بڑھ کر 31 فیصد ہو چکا ہے۔ نئے جنگلات کا کم از کم 69 فیصدحصہ محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
یاد رہے دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی کا سالانہ تناسب 7.3 ملین ہیکٹر ہے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کیوبا کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار کان کنی پر ہے۔ حکومتی قانون کے مطابق 3,000 ہیکٹر جنگلات سالانہ کان کنی کے لئے کاٹے جا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ جتنا جنگل کٹے گا، اتنا ہی نیا کاشت بھی کیا جائے گا۔
اسی طرح سالانہ تقریباً 3,000 ہیکٹر جنگل میں آگ لگنے کے واقعات میں تباہ ہو جاتا ہے۔ آگ لگنے کے نوے فیصد واقعات انسانی غلطیوں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ ان مسائل سے نپٹنے کے لئے سالانہ 6000 ہیکٹر رقبے پر نئے جنگلات اگائے جاتے ہیں۔
اب ذرا برازیل کی مثال لیجئے۔ وہاں جب ورکرز پارٹی کی حکومت تھی تو ایمازن کے جنگلات بچانے کے لئے قانون سازی بھی ہوئی اور اچھے اقدامات بھی کئے گئے۔ جوں ہی دائیں بازو کے بولسنارو کی حکومت بنی، ایمازن میں آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومت جنگلات کی تباہی کر رہی ہے اور اس بے کار دلیل کے پیچھے چھپ رہی ہے کہ برازیل کی زراعت کے لئے ضروری ہے کہ جنگلات کم ہوں اور زرعی رقبہ بڑھے اور معیشت ترقی کرے۔
ایسے موقعوں پر دائیں بازو کے پاپولسٹ ”سامراج مخالف“ بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغرب نے ترقی کر لی، اب ہماری باری ہے تو ماحولیات کے نام پر سامراج ہماری ترقی روک رہا ہے(چین بھی اس طرح کا موقف پیش کر تا رہا ہے)۔ اس سے زیادہ احمقانہ موقف ممکن نہیں۔
پہلی بات، ماحول کی قیمت پر ہونے والی ترقی، ترقی نہیں ہوتی۔
دوم، بگڑتا ہوا ماحول اور بڑھتی ہوئی آلودگی کسی ایک ملک نہیں، ساری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔
سوم، کیوبا کی مثال ثابت کرتی ہے کہ معا شی ترقی اور ماحولیات ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی سے دونوں ممکن ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔