عمران کامیانہ
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا شمار پاکستان کے گنے چنے سنجیدہ معیشت دانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ وہ انقلابی لائحہ عمل پہ تو شاید یقین نہیں رکھتے لیکن مسئلے کی سنگینی، گہرائی اور کسی حد تک بنیادی وجوہات کا ادراک ضرور رکھتے ہیں۔ جب سارا کارپوریٹ میڈیا تحریک انصاف کے قصیدے پڑھ رہا تھا اور عمران خان کو مسیحا بنا کے پیش کیا جا رہا تھا‘ وہ اُن چند ایک مین سٹریم تجزیہ نگاروں میں شامل تھے جنہوں نے تلخ زمینی حقائق کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی تھی۔
گزشتہ روز کراچی میں پائلر (PILER) اور شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی (SZABIST) کی جانب سے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں بحث کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی کچھ دلچسپ اور غیرمعمولی باتیں کہیں۔
روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی قسمت کا فیصلہ آئی ایم ایف خود اپنے ساتھ ہی مذاکرات سے کر رہا ہے۔ جب تک لوگ آواز نہیں اٹھائیں گے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ انہوں نے معاشی بحران کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دو طرح کے رخنے یا خسارے ہیں۔ ایک ڈالر کا خسارہ ہے جس کی وجہ درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہونا ہے۔ دوسرا روپوں کا خسارہ ہے جس کی وجہ حکومتی آمدن کا اخراجات سے کم ہونا ہے۔
تفصیلات بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 2003ء میں ہم 100ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 125 تا 130 ڈالر کی درآمد کرتے تھے۔ یوں 25 سے 30 ڈالر کا فرق تھا۔ لیکن آج یہی فرق 125 ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہے ہیں۔ نجکاری کے بعد بیرونی کمپنیاں روپوں میں منافع بناتی ہیں اور ڈالروں میں تبدیل کر کے باہر بھیج دیتی ہیں۔ 2009ء کے بعد یہ عمل تیز تر ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”ریاست کو شرم آنی چاہئے کہ غیر ملکی کمپنیاں ہمارے نل سے پانی بھر کے بوتلوں میں ڈالتی ہیں اور ہمیں ہی بیچ کے منافع ڈالروں میں باہر بھیج دیتی ہیں۔ ریاست صاف پانی تک فراہم نہیں کر سکتی… یہی حال تعلیم کا ہے۔“
بجٹ خسارے پر اُن کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایف بی آر کا چیئرمین کون ہے۔ معیشت میں مزید ٹیکس اکٹھے کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ٹیکس چوری ہوتا ہے لیکن دو تہائی ٹیکس صنعتی شعبے سے وابستہ ہے اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں یہاں صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں وہ براہِ راست ٹیکسوں کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں صرف 15 فیصد ٹیکس براہِ راست ہے جبکہ 85 فیصد بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) ہیں جو عام لوگ ادا کرتے ہیں۔ زرعی ٹیکس کی بات کرنے والوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ 80 فیصد کاشتکار چھوٹے کسان ہیں جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ زرعی شعبے میں صرف 10 فیصد لوگ ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ ”اس وقت وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک دونوں باہر سے آئے ہیں۔ 1993ء کے بعد سے ایسے درآمد شدہ ماہرین کی بھرمار رہی ہے جن کی عوام میں کوئی بنیادیں نہیں ہیں اور جو صرف پیسہ بنانے کے لئے آتے ہیں۔“ معیشت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اپنے قبضے اوراختیار میں لے لیا ہے۔ ماضی میں حفیظ شیخ‘ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ تک کا فون نہیں اٹھاتا تھا۔ آج آئی ایم ایف‘ آئی ایم ایف سے ہی مذاکرات کر رہا ہے۔ ”جب تک ہم نے سڑکوں پہ آ کے آواز نہ اٹھائی کچھ نہیں بدلے گا۔ بند کمروں میں باتیں کرنے سے کچھ تبدیل نہیں ہو گا!“
ہم ڈاکٹر قیصر بنگالی سے اتفاق کرتے ہیں کہ عوام کو آواز اٹھانی چاہئے۔ لیکن اِس دیوالیہ نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے نہیں بلکہ بدلنے کے لئے۔ کیونکہ خود اُن کی مذکورہ بالا باتیں نشاندہی کر رہی ہیں کہ اِس نظام میں اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔
ہم نے پچھلے کچھ عرصے کے دوران آئی ایم ایف کے تاریخی کردار اور پاکستان کی معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجوہات و مضمرات پر تفصیلی مضامین شائع کیے ہیں جن کی فہرست ہم اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں:
درآمد شدہ معاشی ماہرین پہلے کیا کرتے رہے ہیں؟
موجودہ حکومت کس کس شعبے کی نجکاری کرنے جا رہی ہے؟