خبریں/تبصرے

اردگان کو فلسطین کا نقشہ یاد ہے کردستان کا نہیں

فاروق سلہریا

پاکستانی ہینڈسم سے پہلے، 24 ستمبر کو ترک ہینڈسم کی تقریر مندرجہ ذیل تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی تھی۔

تصویر میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو وہ نقشہ دکھا رہے ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ 1947ء کے بعد سے کس طرح اسرائیل کا ناجائز قبضہ (اور رقبہ) بڑھتا جا رہا ہے جبکہ فلسطین سکڑتا بھی جا رہا ہے اور بکھرتا بھی جا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی شاطر ریاست نے فلسطین کو اس بے دردی اور چالاکی سے کاٹ چھانٹ دیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پڑ جانے والی دراڑ کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔ عنقریب نوبت یہاں تک پہنچنے والی ہے کہ ایک عرب محلے سے دوسرے عرب محلے تک پہنچنے کے لئے اسرائیل کی فوجی چوکیوں سے گزر کر جانا پڑے گا۔

ادھر، یہ بھی سچ ہے کہ عرب دنیا یا مسلم دنیا کا کوئی سنجیدہ رہنما آج فلسطین کی بات نہیں کر رہا۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ آج کوئی سنجیدہ اور مدبر رہنما، مراکش سے انڈونیشیا تک، دکھائی بھی نہیں دیتا۔

ایسے حالات میں جو ”بزر جمہر“ مسلم دنیا کی قیادت کا ڈھونگ رچانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ سب منافقت کی تجسیم ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جو نام نہاد رہنما اپنے ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتا یا اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے، وہ بے چاری اُمہ کا چیمپئین بن جاتا ہے۔ یہی حال طیب اردگان کا ہے۔

اسرا ئیلی چیرہ دستیوں کا شکار، فلسطین کا اندوہناک نقشہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو دکھانے والے طیب اردگان کا یہ عمل منافقت کے سوا کچھ نہیں تھا کیونکہ لگ بھگ جو کچھ اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ کیا ہے وہی کچھ ترکی نے کردستان کے ساتھ کیا ہے۔

طیب اردگان کس منہ سے فلسطین کی آزادی کی بات کرتا ہے کہ جب ترکی نے کردستان کے اندر بد ترین جبر روا رکھاہوا ہے اور کردستان کی آزادی کو روکنے کے لئے ترک، عرب اور ایرانی قیادت ایک ہو جاتے ہیں؟

اگر محترم طیب اردگان کو فلسطین کا اتنا ہی دکھ ہے تو ترکی کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لینے چاہئیں۔ تقریباً بیس سال گزر گئے ہیں طیب اردگان کی ”فلسطین دوست“ حکومت کو اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے مگر ابھی تک اردگانی ترکی نے اسرائیل سے فوجی اور کاروباری روابط توڑے ہیں نہ اسرائیلی سیاحوں پر یہ پابندی لگائی ہے کہ وہ ترکی نہیں آ سکتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں بھی پاکستان کی طرح میڈیا ”بالکل آزاد“ ہے۔ ترک میڈیا نے بھی طیب اردگان کی تقریر کو تاریخی قرار دیا ہے۔ ترکی میں بھی قومِ یوتھ پائی جاتی ہے۔ ترک یوتھیے بھی استنبول ائر پورٹ پر اسرائیلی سیاحوں کا استقبال کرتے ہوئے ابھی تک اس تقریر پر سر دھن رہے ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔