پاکستان

فضل الرحمٰن دھرنا موجودہ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہو سکتا ہے مگر دھرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی

فاروق طارق

مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس دھرنے کی تاریخ کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسے نومبر تک ملتوی کرانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

ادھر، پیپلز پارٹی اس دھرنے کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف نقطہ نظر اختیار کرتی رہی ہے۔ ایک ہی سانس میں اس دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا اعلان اور اس کی سیاسی حمایت کا اعلان بھی کیا جاتا رہا۔ اب شاید  پیپلز پارٹی اس میں ٹوکن شرکت پر آمادہ نظرآتی ہے۔

اندریں حالات، یہ دھرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مذہبی جماعت جس کے سربراہ عام انتخابات میں اپنی نشست بھی نہ جیت سکے، اب ”عوامی طاقت“ سے حکومت کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کافی تیاریاں کی ہوئی ہیں، کئی شہروں میں بڑے جلسے اور ریلیاں کر چکے ہیں اور اسلام آباد گھیراؤ کا اعلان تو سب کو معلوم ہے۔

کوئی اور یہ کر رہا ہوتا تو تحریکِ انصاف کی حکومت اسے کب کا جیلوں میں ڈال کر ملک دشمنی اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر چکی ہوتی۔ مولانا کے خلاف اس لئے مقدمات درج نہیں کئے گئے اور ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا کہ ان کی حمایت قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بڑی حد تک موجود ہے اور حکومت کو ڈر ہے کہ ایسی صورت میں حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔

تحریکِ انصاف حکومت ابھی تک گو مگو میں ہے کہ اسے کیسے روکا جائے؟ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر ان کے دھرنے کو ملتوی کرایا جائے۔ 3 اکتوبر کو دھرنے کی تاریخ کے اعلان کے بعد اب حکومت اسے جبر کے ذریعے روکنے اور کچلنے کا پبلک ارادہ بھی ظاہر کر چکی ہے۔

مولانا کے کیا ارادے ہیں؟

کیا وہ دھرنے کی سیاست سے حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو ں گے؟

اس دھرنے بارے بائیں بازو کا نقطہ نظر کیا ہونا چاہئے؟

مولانا کے ارادے اس وقت تک تو خطرناک دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے دباؤ کے باوجود اپنے دھرنے کو ملتوی کرنے پر رضامند نہ ہوئے۔ وہ ہر صورت اسلام آباد پہنچ کر حکومت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے اس سے قبل بڑے جلسے اور ریلیاں ہیں جن میں ان کی امیدوں سے بڑھ کر لوگ شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے علاوہ سابقہ فاٹا کو بھی ٹارگٹ کیا ہوا تھا۔ ان کے پیچھے کوئی اسٹیبلشمنٹ کا ادارہ ہے یا انہیں کا کوئی ادارہ موجودہ حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے یہ حربہ استعمال کر رہا ہے، یہ واضح نہیں۔

اگر اس متوقع دھرنے کا موازنہ مولوی خادم رضوی کے دھرنے سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مولوی خادم رضوی کے اسلام آباد والے دھرنے کو تو واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ تحریکِ لبیک کو ریاستی سرپرستی میں تعمیر کیا گیا تھا مگر بعد میں ان کے کنٹرول سے باہر ہونے کی وجہ سے اسے اسی ریاست نے جبر سے ختم کر دیا۔

مولوی خادم رضوی کے دھرنے اور مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں بنیادی فرق ان کی سماجی بنیادوں کا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ایک پرانی مذہبی سیاسی جماعت ہے جو اپنی مضبوط سماجی بنیادیں رکھتی ہے جبکہ تحریکِ لبیک کو مصنوعی اور وقتی طور پر ابھارا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا اب تو سامنا بھی تیزی سے غیر مقبول ہونے والی حکومت سے ہے اور یہ بات بھی ان کے حق میں جاتی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام حقیقت میں وفاقی سطح پر حزبِ اختلاف بن چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی تحریکی رویہ اختیار نہ کرنے کے بعد موجودہ حکومت کے خلاف عوام کے تنقیدی اور مخالفانہ رویے اب اس مولانا کی تحریک کی صورت میں ابھر سکتے ہیں۔

کیا یہ دھرنا حکومت کو ختم کرنے کے قریب پہنچ سکتا ہے؟

اس کا انحصار دھرنے کے اسلام آباد پہنچنے پر ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ لوگوں کو راستے میں ہی روک لیا جائے، ان کو مارا پیٹا جائے یا گرفتار کر لیا جائے اورلاٹھیاں اگر کام نہیں کریں گیں تو آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

دھرنا اگر جبر سے ختم ہوا تو 2014ء کے عمران خان والے دھرنے سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے جب اُس دھرنے نے اپنی طوالت کے باوجود مسلم لیگی حکومت کو ختم تو نہ کیا مگر اس کے خاتمے کی بنیادیں ضرور رکھ دی تھیں۔ یہ بھی کافی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے نہیں کر سکتی۔

یہ دھرنا ایک رجعتی رائٹ ونگ سیاسی جماعت کے اقتدار کے خلاف دیا جا رہا ہے جو نیو لبرل ایجنڈے پر تیزی سے عمل کر رہی ہے اور تیزی سے غیر مقبول بھی ہو رہی ہے مگر جمعیت علمائے اسلام تو ایک ایسا مذہبی گروہ ہے جس نے طالبان جیسے گروہوں کو بھی سیاسی تحفظ دیا ہوا تھا۔ ایم ایم اے کے 2002ء سے 2008ء تک صوبائی اقتدار کے دوران مذہبی جنونیت تیزی سے پھیلی تھی۔ دہشت گرد گروہ اسی دور میں قبائلی علاقوں میں اپنے اڈے بنانے میں کامیاب ہوئے۔

بایاں بازو کسی صورت مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی حمایت نہیں کر سکتاکیونکہ یہ تو سیاسی مذہبی جنونی گروہوں کی حمایت کے مترادف ہوگا۔ اس کا قطعاًیہ بھی مطلب نہیں کہ ہم مولانا کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی حمایت کریں گے۔

ہمارا موقف دونوں کی مخالفت پر مبنی ہو گا۔ کسی ایک کو تنقیدی حمایت بھی نہیں دی جا سکتی۔ ان دونوں میں کوئی کم برائی نہیں۔ ویسے بھی ہم کم برائی اور زیادہ برائی میں تمیز کر کے کسی ایک کی حمایت کرنے کو انقلابی فریضہ نہیں سمجھتے۔

ہم چاہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کا فوری خاتمہ ہو اور نئے عام انتخابات کا انعقاد ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کے ذریعے کیا جائے مگر اس مقصد کے لئے مولویوں کے دھرنے کے ذریعے اس غیر مقبول حکومت کا خاتمہ ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مصیبتوں میں ڈال سکتا ہے۔ یہ دونوں ہماری چوائس نہیں۔

ہم محنت کش طبقے سے یہی اپیل کریں گے کہ وہ اس دھرنے میں شرکت کی بجائے اپنی ٹریڈ یونینوں اور تحریکوں کے ذریعے نہ صرف اس حکومت بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف  اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ مولوی کی مذہبی سیاست ہماری سیاست نہیں ہے۔ یہ تو ایک انتہائی رجعتی معاشرے کو جنم دینے کی سیاست ہے جس میں سب سے پہلے شکار اس معاشرے کے کمزور ترین طبقات ہوں گے۔ عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف اقدامات ان کی سیاست کا فلسفہ ہے۔ ہم ایسی سیاست کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کر سکتے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔