خبریں/تبصرے

بولیویا: نیشنلائزیشن کیوجہ سے 670,000 نئی نوکریاں، 74 ارب ڈالر اضافی آمدن

فاروق سلہریا

لاطینی امریکہ کے بہت سے دیگر ملکوں کی طرح 2006ء میں بولیویا کے لوگوں نے بھی بائیں بازو کے ایک رہنما، ایوو مورالس (Evo Morales) کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ صدر مورالس نے حکومت میں آتے ہی معیشت کے اہم حصوں کو قومی ملکیت میں لینا شروع کر دیا۔ بولیویا میں گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ گیس کی کم از کم 80 فیصد پیداوارکو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ باقی بیس فیصد حکومت اور نجی کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ قومی ملکیت میں لئے جانے سے پہلے نجی کمپنیاں حکومت کو اپنی آمدن کا 18 فیصد ٹیکس دیتی تھیں۔ گویا اپنی مرضی سے ٹیکس دیتی تھیں۔ معاشی لحاظ سے گیس بولیویا کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو تیل خلیجی ممالک کے لئے۔

گیس کے علاوہ کان کنی، ٹیلی کام، ایروسپیس، بنکاری اورمینوفیکچرنگ کے بعض شعبہ جات بھی رفتہ رفتہ قومی ملکیت میں لئے گئے۔ ان اداروں سے ہونے والے منافعے کو صدر مورالس کی حکومت نے کسانوں کی امداد، عوامی خدمات اور غربت کے خاتمے پر صرف کیا۔

ان معاشی اقدامات کے نتائج لاطینی امریکہ کے معروف تھینک ٹینک ’CELAG‘(لاطینی امریکہ کا سٹریٹیجک مرکز برائے جیوپالیٹکس) کی طرف سے حال ہی میں جاری کئے گئے ہیں۔

اس تھینک ٹینک کے مطابق معیشت کو قومی ملکیت میں لینے کی وجہ سے بولیویا میں 670,000 نئی نوکریاں پیدا ہوئیں جبکہ ملکی آمدن میں 74ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

2005 میں ملکی آبادی کا 38.2 فیصد انتہائی غربت کی سطح پر زندہ تھا۔ صدر مورالس کی بارہ سالہ حکومت کے بعد یہ شرح کم ہو کر 15.2 فیصد رہ گئی ہے(۱)۔

پچھلے چھ سال کے اندر تیس لاکھ لوگ، کل آبادی کا ایک تہائی، غربت کی سطح سے بلند ہو کر متوسط طبقے کا حصہ بنے ہیں۔ 20 اکتوبر کو بولیویا میں انتخابات ہیں۔ فنانشل ٹائمز جیسے سرمایہ دار اخبارات صدر مورالس کی شکست کی پیش گوئیاں (درحقیقت خواہش کا اظہار) کر رہے ہیں مگر رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ صدر مورالس چوتھی مرتبہ بھی صدر بن جائیں گے(۲)۔

حوالہ جات:

۱۔ ٹیلی سور انگلش

۲۔ https://www.ft.com/content/e16c0c7c-e387-11e9-b112-9624ec9edc59

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔