خبریں/تبصرے

ایودھیا کا عدالتی فیصلہ: ہندو مسلم تنازعے کا خاتمہ یا نئی رنجشوں کا آغاز؟

قیصرعباس

حال ہی میں بھارت کی عدالت عظمیٰ نے رام مندر اور بابری مسجد کے تنازعے پر ہندو اور مسلمان فریقوں کے درمیان ایک اہم مقدمے کا فیصلہ سنایا جس کو عمومی طورپر تو دونوں فریقوں نے تسلیم کیا ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

عدالت نے چالیس دنوں کی کاروائی کے دوران گواہوں، تاریخی حوالوں اور آثارِ قدیمہ کی تحقیق کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر کی تعمیر ایک نئے ٹرسٹ کے تحت کی جائے گی۔ اس ٹرسٹ کو حکومت تین ماہ کے اندر قائم کرے گی مگر حکومت کا مندر کے انتظامی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو اسی شہر میں کسی نمایاں جگہ پر پانچ ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے دی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے مسئلے کے کئی اہم نکات کا جائزہ لے کر انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس نے کئی پہلوؤں کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ کئی اورسوالوں کو جنم بھی دیاہے جن کا جائزہ لیناضروری ہے۔

عدالت عظمیٰ الہ آ باد ہائی کورٹ کے 1910ء کے اس فیصلے پر نظر ثانی کررہی تھی جس میں مسجد کے احاطے کو تین فریقوں یعنی سنی وقف بورڈ، رام لالہ اور نرموئی اکھاڑے میں یکساں طورپر تقسیم کرنے کا حکم دیاگیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلو ہیں: ہندوؤں کی جانب سے یہ الزام کہ مغل شہنشاہ بابر نے 1528ء میں اس مسجد کی تعمیر ایک مندر کو گراکر کی تھی، مقدمے کا اہم نکتہ تھا۔ ہندو جماعتوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مقام پر رام کی جنم بھومی تھی جس کو مسمار کرکے مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ان دعوؤں اور فریقین کے مالکانہ حقوق کی توجیہات کی بنیاد پر عدالت کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیایہاں ہندوؤں کی ملکیت ثابت کی جاسکتی ہے یا مسلمانوں کی؟

انڈیا کے محکمہ آثارِ قدیمہ (Archeological Survey of India, ASI)نے پہلے ستر کی دہائی اور اس کے بعد 2003ء میں اس جگہ پر تحقیق کرکے ایک مندر کے کچھ آثار برآمد کئے تھے۔ یہ تحقیق چونکہ ایک مسلمان سائنسدان کے کے محمد نے کی تھی، اسے ہندووؤں نے اپنے ایک اہم دعوے کے طورپر پیش کیا لیکن عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ثابت نہیں ہوسکاکہ ان نشانیوں کا تعلق کسی ہندو مندر، بدھ عبادت گاہ یاپھر کسی اور مذہب کی عبادت گاہ سے ہے۔

انڈیا کے مشہور قانونی ماہر اور حیدرآباد کی نلسر یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کے مطابق تاریخی طورپر اس تحقیق میں چارسوسال پر محیط ایک اہم دور کے کوئی آثار نہیں ملے جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہاں کوئی ہندو مندر تھا بھی یا نہیں؟

زیرِزمین مندر کے آثار پائے جانے کے باوجود ایک اور اہم سوال یہ بھی تھا کہ کیا مسجد کی تعمیر کے لیے کسی مندر کوگرایا گیاتھا؟ عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ثابت نہیں ہوا کہ بابری مسجد کسی مندر کو ڈھاکر بنائی گئی تھی۔ اس طرح عدالت نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اس الزام سے بری کردیا کہ ان کے آباو اجداد نے ایک ہندو مندر کو مسمار کرکے بابری مسجد بنائی تھی۔

ان اور دوسرے کئی پہلوؤں کی بنیاد پر تیسرا اہم پہلو اس احاطے کی ملکیت کا تھا۔ تاریخی شواہدکے مطابق بابری مسجد کی تعمیرمغل بادشاہ بابر کے گورنر میر باقی کے زیرِ انتظام 1528ء میں کی گئی تھی جہاں اس دور سے ہی نماز ادا کی جاتی رہی اور اسے مسلمانوں کی عبادت گاہ کی حیثیت حاصل رہی۔ مغل درباروں سے اس مسجد کے انتظامات کے لئے 60 روپے سالانہ کی گرانٹ بھی جاری رہی جو اس دور کے لحاظ سے معقول رقم تھی۔ ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے بھی عدالت نے یہ بار مسلم فریقین پرہی رکھا کہ وہ ثابت کریں کہ1528ء سے 1857ء تک یہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ فیصلے کے مطابق یہ بات ثابت نہیں کی جاسکی۔

آزادی کے بعد 1949ء میں بابری مسجد میں رام کی مورتیاں ر کھ د ی گئیں جس کے بعد مسجد کو مقفل کرکے اسے عبادت کے لئے ممنوع قراردیا گیا۔ فیضان مصطفی کے مطابق مسلمانوں نے بھائی چارے اور امن کے لئے ہندوؤں کو مسجدکے باہر چبوترے پر پوجا پاٹ کی اجازت دی تھی لیکن عدالت ِعظمیٰ نے خیر سگالی کے اس جذبے کو ان ہی کے خلاف استعمال کیا اگرچہ مسجد کے باہر مورتیاں رکھنے کے عمل کو غیر قانونی بھی قراردیا ہے۔

اس قانونی اور تاریخی پس منظر میں عدالت نے کہا کہ سنی وقف بورڈ اور رام لالہ دونوں فریق احاطے پر اپنی ملکیت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ نتیجے کے طورپر ایک تیسرے فریق نر موئی اکھاڑے کو تکنیکی بنیادوں پر مقدمے سے خارج کرتے ہوئے مسجدکی جگہ مندر تعمیر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے اور مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ہدایات جاری ہوئیں۔

دراصل بابری مسجد او ر رام مندرکا یہ مسئلہ سیاسی مقاصدکے حصول کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ پہلے کانگرس نے اور پھر بی جے پی نے اپنی انتخابی سیاست کا ایک حصہ بناکر دونوں مذاہب کے درمیان نفرتوں کی دیوار کھڑی کردی جو وقت کے ساتھ وسیع ہو تی جارہی ہے۔

اس مسئلے کو انتخابی سیاست کا حصہ بنانے کا سہرا بی جے پی کے سیاستدان ایل کے ایڈوانی کے سرجاتاہے جنہوں نے 1984ء میں رام مندر کی داستان کا پرچارشروع کیا اور ایودھیا میں دھرنادے کر ہندو رجعت پسندوں کے تعاون سے سیاست چمکائی۔ بی جے پی نے جس سیاست کی بنیاد مذہبی تفریق پر رکھی اسی کے سہارے ہندو جماعتوں نے ایک منظم تحریک کے ذریعے دسمبر 1992ء میں بابری مسجد کومسمار کردیا۔ عدالت نے اس حملے کوبھی غیر قانونی قراردیا ہے۔

فیصلہ آنے سے پہلے ملک میں ہندو، مسلم رہنماؤں اور خود وزیرِاعظم نریندر مودی نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی تھی اور سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ فیصلہ اگرچہ ہندو اکثریت کے حق میں ہی تھا لیکن ایسا لگتاہے کہ مسلمان بھی اب ملک میں اس دیرینہ مسئلے کا اختتام اور کسی قسم کے فساد سے بچناچاہتے تھے جس سے انہیں ہندو اکثریت کے ہاتھوں اپنے مالی اور جانی نقصانات کا خطرہ نظر آرہا تھا اگرچہ کچھ مسلم رہنماؤں نے سخت الفاظ میں فیصلے کی مذمت کی۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسدالدین اویسی نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ”ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں اور مسلمان چارایکڑ زمین کے محتاج نہیں ہیں۔“ دوسری طرف راشٹریہ سیوک سنگھ کے رہنما ایم جی واڈیا نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ”ایک متنازع جگہ اب غیر متنازع ہوچکی ہے اور اب یہاں ایک بڑا مندر تعمیر ہوگا۔“ ان بیانات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ہندو مسلم فسادات کا خطرہ ٹل گیا ہے۔

ماہرین کے نزدیک یہ عدالتی فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے اور قانون دان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عدالت ِعظمیٰ نے پہلے ہندو جماعتوں کے ان اقدامات کو غیر قانونی قراردیا جن کے تحت احاطے میں ہندو مورتیاں رکھی گئیں اور ایک منصوبے کے تحت مسجد کو مسمار بھی کیا اور پھر ان ہی فریقین کو حقِ ملکیت دے کر انہیں اسی جگہ پر مندر بنانے کی اجازت بھی دے دی گئی؟

معروف تاریخ دان اور جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی کی سابق پروفیسر رومیلا تھاپر نے ایک تبصرے میں اس عدالتی فیصلے کو قانونی نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ قراردیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہاکہ ”اس فیصلے نے یہ عدالتی مثال قائم کردی ہے کہ زمین کی ملکیت کا اس بنیاد پر دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کسی ایسی الہامی یا نیم الہامی ہستی کا جنم استھان ہے جسے ایک گروہ مقدس مانتاہے۔ اب ہوگا یہ کہ ایسے کئی جنم استھان سامنے آئیں گے جو کسی ایسی زمین پر دریافت ہوں گے جس پر کسی کی نظر ہوگی۔“

ہندومسلم تعلقات کو ہندوستان کے رجعت پسند سیاست دانوں نے منافرت اور تفریق کی جس منزل تک پہنچادیا ہے، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے کے ذریعے اس پر بند باندھنے کی کوشش کی ہے تاکہ فسادات کی آگ نہ بھڑک اٹھے لیکن عدالت کے پانچ منصفوں نے ایسا کرتے ہوئے ہندو اکثریت کے مفادات کو تحفظ دیاہے اور ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے حقوق کو نظر انداز کیاہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ مجموعی طورپر اس فیصلے نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سماجی انصاف اور اقلیتوں کے حقوق پر نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں!

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔