پاکستان

لاہور: ہسپتال پر وکلا کا حملہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی ہے

فاروق طارق

لاہور کی تاریخ کا یہ ایک سیاہ دن تھا۔ وکلاکی ایک بڑی تعداد نے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جا کر ڈاکٹروں کی ایک طنزیہ گفتگو پر مبنی وائرل ویڈیو کا بدلہ لینے کے لئے ہسپتال پر حملہ کر دیاجس میں ان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔

مریضوں، پیرا میڈیکل سٹاف اورڈاکٹروں سے بدتمیزی کے علاوہ انہیں جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایاگیا۔ مریض ہسپتال چھوڑ کر بھاگ گئے اورکئی افراد کی فوری طبی امداد نہ ملنے پر ہلاکتیں بھی واقع ہوئیں۔

جب صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو پولیس کو بھی ہوش آ گیا۔ اگر پولیس چاہتی تو وکلا کو راستے میں روکا جا سکتا تھا۔ وہ لاہور سیشن کورٹ سے چل کر گورنر ہاؤس کے پاس سے گزر کر چائنہ چوک سے ہوتے ہوئے ہسپتال پہنچے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا نے جو کاروائی کی اس میں جنوری 2020ء میں ہونے والے ڈسٹرکٹ بار الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار پیش پیش تھے۔

پولیس مزدوروں اور کسانوں کے جلوسوں کو تو ہر وقت روکنے اور مارنے پر تیار ہوتی ہے۔ مگر ایک پروفیشنل تنظیم کے ارادوں کو جانچتے ہوئے بھی اس نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

ہسپتال پر وکلاکا یہ مظاہرہ اور حملہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی ہے۔ آج کے وقوعہ پر تمام پروفیشنل وکلا کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

ایسا کیوں ہوا، اس پر اب حکومت غور کر رہی ہے۔ جن دو وزیروں نے ہسپتال جا کر اپنے نمبر بنانے کی کوشش کی ان میں سے ایک کو وکیلوں نے مارا اوردوسرے کو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ البتہ دو پروفیشنل تنظیموں کے درمیان یہ کشمکش کافی دنوں سے جاری تھی۔

وکلا اب ہر جگہ جا کر اپنی وردی کا رعب جمانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ہسپتال کے کارکنوں کے مطابق یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب دو وکلانے اپنی باری کے بغیر جلدی دوائی لینے پر اصرار کیا، جس پر لڑائی میں وکلا کو مارا پیٹا گیا اور اس کا بدلہ وکیلوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرا کے لیااور بار بار جلوس نکالے۔

ادھر ڈاکٹروں نے بھی انتہائی طنزیہ گفتگو میں وکلا کی مار کو اپنی جیت قرار دیا اور ان کا خوب مذاق اڑایا۔ جس کا فیوڈل انداز میں بدلہ لینے کے لئے وکلاکی بڑی تعداد نے ہسپتال جا کر ان کو مزا سکھانے کی ٹھانی اور پھر صورتحال ان کے کنٹرول سے بھی باھر ہو گئی اورپولیس نے صورت حال کو قابو کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

کئی وکلا سخت زخمی ہوئے ہیں اور یہ بھی خبریں ہیں کہ ان کا علاج کرنے سے ڈاکٹرز انکاری ہیں۔ 40 کے قریب وکلاگرفتار ہیں اورباقیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ لا ہور میں رینجرز کو بلا کر مختلف مقامات پر تعینات کر دیا گیا ہے۔

یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، دو پروفیشنل گروپ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائیاں معاشرہ کی عمومی پستی اور عدم برداشت کی تمام حدیں پار ہونے کی غمازی ہیں۔ معاشرہ پر تشدد بن چکا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں حکمران طبقات ہیں۔

عمومی سماجی برے حالات میں ہر گروہ اپنی برتری کے ذریعے وہ بھی کرنا چاہتا ہے جو اس کا حق نہیں۔ وکلاچاہتے ہیں کہ ان کی برتری پورے معاشرے پر انکی بڑھتی غنڈہ گردی کی بنا پر تسلیم کر لی جائے۔

حکومت کے لئے اس طرح پروفیشنل گروہوں کا ایک دوسرے سے لڑنا بڑا فائدہ مند ہے۔ عوام کی توجہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ہٹ کر ان جیسے واقعات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ تو اب بڑی خوش ہو گی کہ وکلا کو بھی کنٹرول کرنے کا موقع مل گیا ہے اور ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کوبھی۔

یہ دونوں گروہ پاور فل ہیں، سماج میں ان کی بڑی طاقت ہے۔ وکلانے اپنی تحریک سے مشرف آمریت کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھااور ہسپتالوں کے محنت کشوں کی بھی زبردست جدوجہد رہی ہے۔ اس واقعہ سے دونوں کی طاقت میں کمی ہو گی اور خاص طور پر وکلا کی اجتماعی طاقت پر پابندیوں کا نیا دور شروع ہو گا۔ وکلااس قسم کی بدمعاشی سے صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔