پاکستان

فیض امن میلہ: انقلابی اٹھان کا اظہار

فاروق طارق

گذشتہ اتوار کے روز، فیض احمد فیض کی 109 ویں سالگرہ کے موقع پر، لاہور میں ہونے والے فیض امن میلے میں عوام کی شرکت نے شمولیت کے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دئیے ہیں۔ 28 سالوں سے ہر سال منعقد ہونے والے اس میلے میں ہزاروں شہریوں کی 9 گھنٹے تک شرکت نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ”ہم دیکھیں گے“۔ اِسی تھیم پر منعقد ہونے والا یہ میلہ، ایک میلے سے کہیں زیادہ بائیں بازو اور ترقی پسند افراد کا ایک متحدہ اظہار تھا۔ شاید ہی بائیں بازو کا کوئی ایسا گروہ، تنظیم یا فرد ہو گا جو اس میلے میں گھنٹوں شریک نہ رہا ہو اور جس نے اس کی تنظیم سازی میں حصہ نہ لیا ہو۔

یہ بائیں بازو کی موجودہ اٹھان کے تسلسل کا ایک عمدہ اظہار تھا۔ میلے بارے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر قمر زمان بھٹی کا کہنا تھاکہ ”فیض امن میلہ تاریخی رہا اوربہت ہی کامیاب رہا۔ عوام کی بھرپور پزیرائی خوب رہی۔ باغِ جناح کا اوپن ایئر تھیٹر سارا دن بھرا رہا۔ جتنے لوگ اندر موجود تھے اس سے دوگناباہر باغِ جناح کے اطراف میں نظر آئے۔ بچے، خواتین، بوڑھے، نوجوان اور فیملیز کی بڑی تعداد موجود رہی۔ میرے خیال سے طلبہ کی طرف سے یونین کے حق کے لئے نکالی جانے والی لال لال ریلی کے جواب میں جو غداری کے مقدمات تھوپے گئے تھے، باشعور طلبہ اور تحریکی ساتھیوں نے اس کا جواب اس امن میلے میں بھرپور شرکت کر کے دیا ہے۔ پنجاب کی سرزمین پر اتنی بڑی تعداد میں بائیں باوز کا نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھلے ریاست انقلابی نظریات کے حامل افراد کو غداری کے الزمات سے داغدار کرے مگر محب ِوطن نوجوان اپنے معاشی حقوق کو اس طرح چھیننے نہیں دیں گے“۔

یہ میلہ ردِ انقلابی دور میں انقلابی اٹھان کا اظہار بن کر ابھرا ہے۔ اسی قسم کے نظریات کا اظہار معروف دانش ور امتیاز عالم نے کیا ہے۔ ”فیض امن میلہ زبردست انقلابی کلچرل شو رہا۔ سبھی کی مشترک کاوشوں کا ثمر۔ سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس بار پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ غالباً 1989ء کے بعد پھر سے انقلابی کروٹ نظر آئی۔ ملک کے موجودہ سیاسی طور پر دگرگوں حالات میں یہ نئی انقلابی لہر کا ابتدائی اظہار تھا۔ ہمارا زور اجتماعی طور پر مزاحمتی عوامی تحریک کی بڑھوتری پر رہے گا تو بات پھر سے بنے گی“۔

ہزاروں لوگوں کی شرکت اچانک نہیں ہوئی بلکہ یہ بائیں بازو، خاص طور پر نوجوانوں اورطلبہ کی جانب سے منظم کردہ کامیاب جلسے جلوسوں، مظاہروں اور احتجاجی سلسلوں کا تسلسل تھی۔

29 نومبر 2019ء کو لاہور میں ”طلبہ مزدور یکجہتی مارچ“ میں ہزاروں کی شرکت، عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کی وفات کے دو سالوں کے دوران کامیاب عاصمہ میموریل کانفرنسیں، بار کونسلوں میں عاصمہ جہانگیر گروپوں کی واضح اکثریت سے جیت، کلائمیٹ مارچ میں ہزاروں کا شامل ہونا، محنت کش طبقات کا مسلسل جدوجہد کے زینہ پر سوار رہنا، عورت مارچ میں عورتوں کی بھرپور شرکت، لاہور لیفٹ فرنٹ کے کشمیر یکجہتی مارچ میں عوام کی غیر معمولی شرکت اور ایسے درجنوں دیگر واقعات میں عوام کا بائیں بازو کی طرف رجوع کرنا، اس میلے میں عوام کی غیر معمولی شرکت کا باعث بنا۔

ہمیں تو اس کا اندازہ ”فیض امن میلہ کمیٹی“کے میلے سے قبل لاہور پریس کلب میں منعقد ہونے والے سات اجلاسوں میں ہر بار اوسطاً60 سے زیادہ کارکنوں کی شرکت سے ہو گیا تھا کہ بھرپور جوش و خروش ہو گا۔ میلے کے لئے انفرادی عطیہ جات بھی پہلے سے کہیں زیادہ رہے۔

یہ احساس ان سب کو تھا جو میلے میں شرکت کے لئے آئے تھے کہ ایک مزاحمتی کلچرل اور سیاسی ایونٹ میں شریک ہو رہے ہیں۔ فیض امن میلہ لاہور میں ہونے والے تمام دیگر ثقافتی میلوں سے منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس میں محنت کش طبقات اور انکی سیاست سے تعلق رکھنے والے نوجوان شریک ہوتے ہیں۔

یہ میلہ لاہور میں اُس فیض احمد فیض کو خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا جس کے انقلابی نغمے آج بھارت میں نسل پرستی کے خلاف مزاحمتی ترانے بن کر ابھرے ہیں۔ بھارت کی تقریبا ًہر زبان میں ”ہم دیکھیں گے“ کا ترجمہ ہوا اور اسے جلسے جلوسوں میں بار بار پڑھا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام موجودہ سرمایہ درانہ نظام اور اس کی رکھوالی سیاسی پارٹیوں کی سیاست سے تنگ ہو کر نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ فیض انہی نئی راہوں کا امین اور مبلغ تھا۔ عوام نے بار بار ان سرمایہ دار جماعتوں کے اقتدار کو دیکھ لیا ہے اور ان سے جان چھڑانے کی جستجو میں جو تلاش جاری ہے فیض امن میلہ اس کی نشان دہی کر رہا ہے۔

پچھلے سال ہونے والے فیض اور جالب میلوں میں بھرپور شرکت اور اس کا تسلسل ایک انتہائی امید افضا پیغام ہے۔ یہ میلہ بائیں بازو کے افراد کو اکٹھے ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ان گروپوں، پارٹیوں اور افراد کے ایک ساتھ کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بائیں بازوکے اتحاد کا اظہار ہے۔ یہ نئی جہتوں کے تعین میں مددگار ہے۔ یہ میلہ بائیں بازو کے عوام میں اثرو رسوخ کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ مذہبی جنونی قوتوں کے معاشرے میں پھیلائے رجعتی کلچر کا ایک ترقی پسند جواب ہے۔ یہ متبادل انقلابی سیاست کو فروغ دیتا ہے۔ یہ امید کا پیغام ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔