پاکستان

گندم کا بحران اور ماحولیاتی تبدیلیاں

امان اللہ کاکڑ

عہدِ حاضر میں عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہر زندہ چیز پر بلواسطہ یا بلا واسطہ پڑ رہے ہیں۔ انسان، حیوانات اور نباتات غرض یہ کہ پوری کائنات ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔ پورا نظام آلودہ بن گیا ہے۔ سانس لینا زہر ہے۔ زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ ہی نہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے مزید بڑے خطرات کا خدشہ ہے۔

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گندم کی کاشت کاری کا ہدف 2.5 فی صد کمی کا شکار ہوا ہے اور یہ کمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق گندم کی کاشت کاری 9.062 ملین ہیکٹرز کی بجائے 8.839 ملین ہیکٹرز پر ہوئی۔ جبکہ سرکاری ہدف 27.03 ملین ٹن ہے۔

سندھ میں گندم کی کاشت کاری 1.1500 ملین ہیکٹرز کی بجائے 1.115 ملین ہیکٹرز رقبے پر ہوئی۔ اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملکی گندم پیداوار کا اوسط 75 فی صد پنجاب میں ہوتا ہے لیکن پنجاب میں 6.564 ملین ہیکٹرز کی بجائے گندم کی کاشت کاری 6.515 ملین ہیکٹرز پر ہوئی۔ خیبرپختونخواہ میں 0.802 ملین ہیکٹرز کی بجائے 0.760 ملین ہیکٹرز پر گندم کاشت کی گئی۔ بلوچستان میں 0.550 ملین ہیکٹرز کی بجائے 0.417 ملین ہیکٹرز پر گندم کی کاشت کاری ہوئی۔ بلوچستان میں بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی، زیادہ بارشیں اور برف باری ہے۔

نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق گندم کی کم کاشت کاری کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور ملوں میں دیر سے گنے کی کرشنگ کی وجہ سے ہوئی۔ ملک ماحولیاتی تبدیلی کے نشانے پر ہے اور آنے والے دنوں یہ سخت نوع کے گندم کے بحران کا شکار ہوگا۔

دوسری طرف سے ٹڈی دل کے حملے ہو رہے ہیں۔ چاروں صوبے بالخصوص سندھ، بلوچستان اور پنجاب سخت متاثر ہیں۔ کئی اضلاع/ علاقوں میں ناقابل ِبرداشت نقصان پہنچا ہے۔ مختلف فصلات تباہ ہوئیں۔ انسانوں کی خوراک حشرات کھا گئے۔ جزوی طور پر یہ حملے رک گئے ہیں مگر یہ سیر نہ ہونے والے حشرات مصروف عمل ہیں اور ٹڈی دل تین، چار سال تک مزیدحملہ آور ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے”یہ گرمیوں میں دوبارہ کپاس کی فصل پر حملہ آور ہوسکتے ہیں“۔ کپاس کی پیداوار پہلے سے 20 فی صد کمی کا شکار ہے۔ ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ بھی ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے قحط کا خطرہ ہے اور آئندہ دنوں میں ٹیکسٹائل کی صنعت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک طرف یہ صورت حال ہے دوسری طرف حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ بس بیان بازی کی جا رہی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ٹڈی دل حملہ آور ہوا مگر اس پر قابو پا لیا گیا۔ باقاعدہ طور پر آئندہ ٹڈی دل کے حملے سے بچنے کیلئے لوکسٹ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کا اہتمام کیا گیا مگر لوکسٹ سے بچانا تو دور کی بات وہ ڈیپارٹمنٹ خود نہ بچ سکا۔ ٹڈی دل کے ہاتھوں کسانوں کا برا حال ہوا ہے۔ سارا دن کسان ٹڈی دل اڑانے اور فصل بچانے کیلئے سیٹیاں بجا تے رہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات ہیں بالخصوص زرعی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے نشانے پر ہیں۔ عالمی سطح پر گھمبیر صورتحال ہے اور آئندہ دنوں مزید بد تر ہونے کا خدشہ ہے۔ عالمی سطح پر ماحولیات کو بچانے اور ماحولیاتی انصاف کے لئے طلبہ اور انسان دوست تنظیموں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے مگر سرمایہ دارانہ نظام کے حکمران طبقات سرمائے کے حوس اور لالچ میں بیہوش نظر آتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی طرح کے انصاف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ماحولیاتی انصاف کی امید سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل انسان پرست سوشلسٹ نظام میں ممکن ہے۔ جب منافع اور سرمائے کی حوس و لالچ نہیں ہوگی تب ہی اس ماحولیاتی تبدیلی کے جبر سے بچنا ممکن ہوگا۔

Aman Ullah Kakar
+ posts

امان اللہ کاکڑ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس (زراعت) کے طالب علم ہیں۔ قلعہ سیف اللہ سے تعلق ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے کارکن اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہیں۔