نقطہ نظر

ایک تنقیدی کمیونسٹ کی یاداشت

اینڈریو کوٹس

ترجمہ: محمد علی

بشکریہ: سوشلسٹ رزسٹنس (Socialist Resistance) اینڈریو کوٹس کا یہ تجزیہ پہلی بار چارٹسٹ میگزین(Chartist Magazine) شمارہ نمبر 304، مارچ۔اپریل 2020ء میں شائع ہوا۔

لیوئیو میتان (Maitan Livio) عالمی ٹراٹسکی اسٹ تحریک کی ایک ایسی معروف شخصیت تھے جن کو بائیں بازو میں حمایت اور عزت حاصل تھی۔ ان کی سوانح حیات ”ایک تنقیدی کمیونسٹ کی یاداشت“ اطالوی زبان میں 2006ء میں شائع ہوئی۔

ان کی یہ آخری کتاب چوتھی انٹرنیشنل کی تاریخ کے حوالے سے ایک زبردست دستاویز ہے۔ میتان فرانس سے تعلق رکھنے والے پیئر فرانک (Pierre Frank ) اور بیلجیئم کے معروف معیشت دان ارنسٹ مینڈل (Ernest Mandel) کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکی ازم کی معروف شخصیت تھے۔

فرانسیسی مارکسی فلاسفر دانیال بن سعید کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ اِس سوانح حیات میں ”طنزو مزاح کے احساس کے ساتھ اپنائیت کا احساس اور دانشورانہ وسعت نظرآتی ہے جو کہ ٹراٹسکی وادی رہنماؤں کی روایتی خصوصیات سے بالکل مختلف ہے۔“

میتان کی یہ کتاب’’چین، پارٹی، فوج اور عوام“کے عنوان سے 1969ء میں اطالوی زبان میں چھاپی گئی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ 1976ء میں سامنے آیا۔ یہ کتاب اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی تھی کہ پڑھنے والوں کی اکثریت چین کے ثقافتی انقلاب کے ساتھ ہمدردی رکھتی تھی۔ اسی لئے کتاب میں چین کی نوکر شاہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ماؤ کی استبدای مطلق العنانیت کی سائمن لیز (Simon Leys) کی طرح مکمل مخالفت نہیں کی جاتی۔

موجودہ اشاعت میں مزید کئی عوامل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں انٹرنیشنل قیادت کی تمام تاریخی سرگرمیوں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے وقت میں دیکھیں۔ ان صفحات میں سرد جنگ کے دوران ٹراٹسکاائسٹ تحریک، نوآبادیات کے خلاف انقلابات، 68ء کے دوران اٹھنے والی تحریکوں، 1974ء کے پرتگالی کارنیشن انقلاب اور 1995ء میں ہونے والی اس کانفرنس کا ذکر ہے جسے فرانکو توریگلیاتو (Turigliatto Franco) نے واہموں کی کانفرنس قرار دیا تھا۔ اس کتاب میں سوویت روس کے انہدام سے دنیا بھر میں بائیں بازو کو لگنے والے دھچکوں کوسمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس انہدام کے بعد سوویت بلا ک (ان ممالک م کوٹراٹسکاائسٹ حلقے بیوروکریٹائزڈ عبوری معاشرے قرار دیتے تھے) میں ڈیموکریٹک لیفٹ ونگ تبدیلی کی امید ختم ہو گئی۔

ان یاداشتوں میں میتان لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کے ساتھ اپنے کام کے بارے میں بھی لکھتے ہیں۔ وہ پوساداس (Posadas) کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروہ کا ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ شہرت خلائی مخلوق کے وجود پر یقین سمجھا جاتاہے، لیکن ساٹھ کی دہائی میں یہ گروہ اپنے اس نظرئے کی وجہ سے مشہور تھا کہ اب عالمی انقلاب کی قیادت لاطینی امریکہ اور افریقہ کریں گے۔

چی گویرا، جس نے ارنسٹ مینڈل کی کتاب ”مارکسسٹ اکانومک تھیوری“ پڑھ رکھی تھی اور اسے یہ کتاب پسند بھی تھی، کی گوریلا حکمتِ عملی کو بولیویا میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ بولیویا میں ٹراٹسکی ازم کو محنت کشوں کی کافی حمایت حاصل تھی۔ ان دنوں اس پورے بر اعظم میں مسلح جدوجہد بارے زبر دست مباحثے ہو رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں کئی گوریلا قوتیں ابھریں جنہوں نے مسلح جدوجہد شروع کردی۔ ارجنٹینا، جہاں ٹراٹسکی ازم کو آج بھی قابلِ ذکر حمایت حاصل ہے، وہاں اختلافات شروع ہوگئے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ایک دھڑا۔ ۔ شدید ریاستی جبر کے پس منظر کی وجہ سے۔ ۔ ۔ مسلح جدوجہدکا حامی نہیں تھا۔ میتان نے چلی اور میکسیکو کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اس نے فورتھ انٹرنیشنل کے اس دھڑے کا بھی ذکر کیا ہے جس کی قیادت مورینو (Moreno) کر رہا تھا۔ یہ تفصیلات اس موضوع کے ماہرین کے لئے دلچسپی کا حامل ہوں گی۔

میتان چیزوں کی جزئیات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ برطانوی [ٹراٹسکاائسٹ تنظیم] ملیٹنٹ کے رہنما ٹیڈ گرانٹ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ٹیڈ گرانٹ اپنے بریف کیس میں مقدس مارکسی دستاویزات اٹھائے پھرتے تھے تا کہ ٹراٹسکی کے متعلقہ ’باب اورآیت‘کا حوالہ دے کربات کر سکیں۔

وہ باصلاحیت عوامی مقررطارق علی کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ 1971ء میں شمالی کوریا سے واپسی کے بعد اس کی بہتر معاشی ترقی کا تذکرہ کافی مثبت انداز میں کرتے تھے۔ امریکہ کی سوشلسٹ ورکر زپارٹی (جس کا برطانیہ کی سوشلسٹ ورکرز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں) جو کہ دنیا کی سب سے پرانی ٹراٹسکائیٹ پارٹی ہے اور جس کا 1930ء میں نیویارک میں موجود دانشوروں پر کافی اثر رسوخ حاصل تھا، اب وہ [اس پارٹی کے رہنما] جیک بارنس (Jack Barnes) کے دباؤ کے تحت اپنی سیاست کو کیوبا کی سیاست کے تابع کر چکی ہے۔ میتان اس جماعت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے رہنما کا رویہ بہت آمرانہ تھا اور اس قیادت نے مخالفین کو غداری کے نام پر پارٹی سے ہی نکال دیا۔ امریکی سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے یورپی حامیوں کو ”ٹراٹسکاائسٹ مشینری“ اور’’فرقہ“ کہا جاتا تھا مگر میتان ان تفصیلات میں نہیں جاتے۔

”ایک تنقیدی کمیونسٹ کی یاداشت“ ایک ایسے شخص کی یادیں نہیں ہیں جو گروہ اور فرقے کے حوالے سے سوچتا ہے۔ کتاب کے بعض حصے ان قارئین کے لئے بھی دشوار ثابت ہوں گے جو اس تحریک سے شناسا ہیں۔ میتان نے 1968ء کے پرامید دور کا بھی جائزہ لیا ہے اور ٹراٹسکی ازم کے جانے پہچانے اس رجحان کا بھی کہ جس کے تحت قیادت جمہوری مرکزیت اور کرشماتی طریقہ کار سے چمٹی رہتی ہے۔ کتاب میں ایسے کئی سارے واقعات کا بخوبی سے ذکر کیا گیا ہے۔ میتان اس کتاب میں ایک گہری نگاہ رکھنے والی شخصیت کے طور پر ابھرتے ہیں۔ میتان دیگر انقلابی رجحانات کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار رہتے تھے، ان کی کوشش تھی کہ تجربے کی بنیاد پر نظریات کی از سر نو تشریح کرتے ہوئے ایک عالمی سرمایہ دارانہ مخالف تحریک کو سوشلسٹ بنیادوں پر چلانا۔ اس کام میں انہیں اسی پائے کے انقلابیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ وہ لوگ جو بائیں بازو کو درپیش مشکلات کے باوجود تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب ایک بہت اچھا ریفرنس ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts