تاریخ

کرونا کے مزدوروں پر حملے، یوم مئی اور تاریخ

فاروق طارق

یوم مئی کی 134 سالہ تاریخ میں شائد پہلی دفعہ عوامی سطح پر محنت کشوں کے بڑے جلسے، جلوس، ریلیاں اور دیگر عوامی سرگرمیاں منعقد نہ ہو سکیں گی۔ اس دفعہ ٹریڈ یونینیں شائد علامتی طور پر سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے کچھ سرگرمیاں منعقد کریں گی جبکہ دیگر آن لائن وبینارز وغیرہ منعقد کر رہی ہیں۔

ایسا ہونا ہی تھا۔ پچھلے تین ماہ نے دنیا کی شکل ہی تبدیل کر دی ہے۔ جو کچھ بھی سرمایہ دار طبقات نے سوچا تھا وہ تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ تاریخ کے شائد ایک بڑے کساد بازاری کے دور سے ہم گزر رہے ہیں اور ابھی گزریں گے۔ کروڑوں محنت کش دنیا کے تمام حصوں میں بے روزگار ہوئے ہیں۔

سرمایہ دار کمپنیاں تاریخی گھاٹے سے دوچار ہیں۔ سسٹم بند پڑا ہے۔ اجڑا ہوابازار سرمایہ داروں کا منہ چڑا رہا ہے۔ کرونا وائرس کے ہاتھوں دولاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تیس لاکھ سے زائد اس سے متاثر ہیں۔ ابھی تک اس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی، البتہ ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں۔ کرونا ان کو زیادہ متاثر کر رہاہے جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں مرے ہوئے ہیں لیکن اس وائرس نے سرمایہ داروں کے بھی چھکے اڑا دئیے ہیں۔

اس معروضی پس منظر میں اس سال یوم مئی منایا جا رہاہے کہ 1930ء کی دہائی کی کساد بازاری اب دوبارہ ہر ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے۔ یہ یوم ِمئی صحت کی سلامتی اور ملازمتوں کے تحفظ کے لئے منایا جا رہاہے۔ اس صورت حال میں ایک محنت کش کا یہ جملہ بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے، ”کرونا مارے نہ مارے، بھوک ہمیں ضرور مار دے گی“۔

نیو لبرل ایجنڈے کے تحت مزدوروں کو طویل اوقات کار اور کم تنخواہوں کا سامنا تھا۔ اب محنت کش طبقات کو نوکریوں کو ڈھونڈنے اور کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے کے دور کا سامنا ہو گا۔ سرمایہ دار طبقات نے فیکٹریوں کو بند اور کسی سماجی تحفظ کے بغیر مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے۔ فیکٹریاں بند مزدوروں کی مرضی منشا سے نہیں ہوئیں مگر اس کا ملبہ مزدوروں کو اٹھانا پڑے گا۔

اس یوم ِمئی پر مزدوروں کو انتہائی مخدوش حالات کا سامنا ہے لیکن پوری تاریخ ہی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ ایک یا دوسر ے طریقے سے سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں کے خلاف اقدامات کے ذریعے اپنے منافعوں کو بڑھاتا رہاہے۔ مزدوروں کا استحصال ہر دور میں ہوا، کبھی کم کبھی زیادہ، مگر کرونا بحران نے مزدوروں کے ایک بڑے حصے کو ”نئے غربا“ کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

اس دفعہ سرمایہ داروں کے پاس بڑے پیمانے پر مزدوروں کوبے روزگار کرنے کا ایک ایسا موقع ہاتھ میں آیا ہے جس کا وہ خوب استعمال کر رہا ہیں۔ اب مسئلہ یہ نہیں کہ کتنے گھنٹے کام کرنا ہے، جو کہ یوم ِمئی کی روح تھا۔ اب مسئلہ تو نوکریوں کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنے کا ہے۔ اب مسئلہ زندہ رہنے کا بنا ہوا ہے۔

سرمایہ داروں نے پچھلے عرصہ میں صنعت کی جو توڑ پھوڑ کی، فیکٹریوں میں مستقل نوکریوں کی جگہ کچی نوکریوں اور انفارمل لیبر کو بڑے پیمانے پر متعارف کرایا۔ اس کرونا وائرس نے اس سیکٹر میں کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ان کا اب کوئی والی وارث نہیں ہے۔ یہ نہ تو یونینوں میں منظم تھے اور نہ ہی ان کو سوشل سکیورٹی کا کوئی اندازہ تھا۔ مزدوروں کے اس حصہ کو پہنچنے والا ناقابل ِتلافی نقصان اس صورت ہی پورا ہو سکتا ہے کہ مزدور کرونا وائرس کے بحران سے کوئی سبق سیکھیں، منظم ہو جائیں اور اپنے آپ کو دیگر مزدور طبقات سے الگ تھلگ نہ سمجھیں۔ ایک اور بڑا نقصان اُن کو ہوا جو سیلف ایمپلائیڈ تھے، چھوٹا موٹا کام شروع کر کے اپنے آپ کو مزدوروں کی صف سے باہر لے گئے تھے۔

کس کو معلوم تھا کہ دنیا تین مہینوں میں کیا سے کیا ہو جائے گی اور اب بھی ہمیں یقین ہے کہ اس مشکل گھڑی کا بھی مزدور طبقہ اپنے طبقاتی شعور کے ساتھ نہ صرف مقابلہ کرے گا بلکہ سرمایہ دار طبقات کے دئیے ان گہرے زخموں سے صحت یاب ہو کر میدان میں پھر پہلے سے بلند شعور کے ساتھ اترے گا جس کا اظہار 1886ء کو شکاگو کے شہید محنت کشوں نے کیا تھا۔ جن کی یاد ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔

آئیے ذرا یوم مئی کی تاریخ پر ایک مختصر نظر دوڑائیں:

انیسوی صدی کے دوران محنت کش طبقات آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے تھے۔ کام کے حالات برے تھے اور اکثر محنت کش 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ کام پر اکثر صنعتی حادثے ہوتے تھے اور اکثر اوقات مزدور ان حادثات میں ہلاک بھی ہو جاتے تھے۔

اٹھارویں صدی کے وسط تک صورتحال یہ تھی کہ مزدور آٹھ گھنٹے روزانہ کام کے لئے کسی کامیابی کے بغیر جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوشلزم کے نظریات تیزی سے عام محنت کشوں میں مقبول اور جگہ بنا رہے تھے۔ مختلف قسم کی سوشلسٹ تنظیمیں معرض وجود میں آ رہی تھیں اور یہ تنظیمیں اور تحریکیں محنت کش طبقات کو ٹریڈ یونینوں میں منظم کرنے کی جستجو میں رہتے تھیں۔

ایسی ہی ایک امریکی ٹریڈ یونین فیڈریشن جس کا نام تھا فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اینڈ لیبر یونینز جو بعد میں امریکن فیڈریشن آف لیبر کہلائی، نے 1884ء میں اپنے ایک کنونشن میں منظور ہونے والی ایک قرارداد کے ذریعے طے کر دیا کہ مئی 1886ء کے دن سے مزدوروں کے لئے ایک دن کام صرف آٹھ گھنٹے پر مشتمل ہو گا اور یہ ان کا لیگل دن ہو گا۔

انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس مقصد کے لئے اس روز سے ہڑتالوں اور مظاہروں سے بھی کام لیا جائے گا۔ 1885ء میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ محنت کش شکاگو اور دیگر امریکی شہروں میں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبہ کے لئے جدوجہد میں شریک ہو گئے۔ یکم مئی 1886ء اب امریکی محنت کشوں کے لئے ایک ایسا دن بن کر ابھر رہا تھا جب آٹھ گھنٹے کام کو قانونی حیثیت مل سکتی تھی۔ یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے تین لاکھ مزدور جن کا تعلق 13000 صنعتی اداروں سے تھا مظاہروں میں شریک ہوئے۔ مطالبہ ایک ہی تھا: ’کام آٹھ گھنٹے روزانہ‘اس سے زیادہ نہیں۔

امریکہ سے قبل آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں 1856ء میں 888 کی ایک تحریک چلی، روزانہ کے 24 گھنٹے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، یہ کہا گیا کہ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریحی سرگرمیاں اور آخری آٹھ گھنٹے آرام یعنی سونا۔ اس تحریک میں کنسٹرکشن میں کام کرنے والے مستریوں اور مزدوروں نے حصہ لیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج بھی ملبورن شہر کے وسط میں آٹھ گھنٹے کام کی یاد میں ایک مجسمہ موجود ہے۔

امریکی شہر شکاگو میں یوم مئی 1886ء کے روز 40,000 سے زیادہ مزدوروں نے ہڑتال شروع کر دی، اس روزانقلابی تقریروں نے ماحول گرم کر دیا، البرٹ پارسن، جوھان موسٹ، اگست سپائیس اور لوئیس لنگ کی تقریروں نے ان کو گھر گھر مقبول کر دیا۔ ہر فرد ان کو جاننے لگ گیا۔ مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی۔

تین مئی کو ہنگامے شروع ہو گئے، پولیس نے تشدد سے کام لینا شروع کیا اور تین مئی کو ایک لاٹھی چارج سے دو ہڑتالی مزدور شہید ہو گئے اور لاتعداد مزدور ذخمی ہوئے۔ چار مئی کو اس واقعہ کے خلاف مزدوروں نے ھے مارکیٹ کے مقام پر ایک جلسے کا اعلان کیا۔ اس روز بارش شدید تھی، کوئی تین ہزار مزدور وہاں پہنچے۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی شریک تھیں اور شکاگو کا مئیر بھی اس جلسہ میں تھا۔ اگست سپائیس شعلہ نوائی کر رہا تھا کہ پولیس نے دھاوا بول دیا۔ اسی دوران اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کے لئے کسی نامعلوم فرد نے پولیس وین پر ایک بم پھینک دیا جس سے ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا، پولیس کی جوابی فائرنگ سے سات مزدور شہید ہو گئے اور چالیس زخمی ہو گئے۔ اس دوران مزدور اپنی سفید شرٹوں کو سرخ خون سے رنگ کر لہراتے رہے اور یوں سرخ رنگ جدوجہد، قربانی اور عزم کا نشان بن گیا اور سرخ جھنڈا مزدوروں کا نشان بن گیا۔

پولیس نے آٹھ مزدور رہنماؤں کو گرفتار کیا اور ان پر قتل کا مقدمہ ڈال دیا۔ ان میں البرٹ پارسن، اگست سپائیس، سیموئل فیلڈن، اسکر نیبی، مائیکل سخواب، جارج اینگلز، ایڈولف مشر اور لوئیس لنگ شامل تھے، اگرچہ ان میں سے صرف تین رہنما اس روز ھے مارکیٹ میں موجود تھے۔

11 نومبر 1887ء کو پارسن، سپائیز، اینگل اور فشر کو ملک بھر سے مظاہروں اور احتجاج کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیا گیاجبکہ لوئیس لنگ نے پھانسی سے ایک روز قبل خود ہی اپنی جان لے لی۔ یہ آٹھ گھنٹے تحریک کے شہدا تھے جبکہ دیگر تین کو چھ چھ سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں انہیں آٹھ گھنٹے تحریک کی قیادت کرنے پر سنائی گئی تھیں۔ مگر بہانہ بم بلاسٹ کا تھا۔ پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے مزدور رہنماؤں نے گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے تاریخی فقرے جرات کے ساتھ کہے: ”تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔“

پھانسیوں کے اس واقعہ کے بعد دنیا بھر میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ مقرر کئے جائیں۔ محنت کشوں کی تحریک اور دباؤ کے نتیجے میں امریکہ میں بھی 1887ء میں ہی سرکاری طور پر کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کر دئیے گئے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کیے۔

یہ شہدائے شکاگو کو خراج ِتحسین تھا کہ دوسری انٹرنیشنل کی 1889ء میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سوشلسٹ کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ یوم ِمئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔ اس اجلاس کی صدارت عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کی تھی۔ 1889ء کے بعد سے یکم مئی کا دن دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس روز محنت کش اپنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔