پاکستان

کرونا، سازشی تھیوریاں اور سوشلسٹ موقف

فاروق سلہریا

سازشی تھیوریاں ساری دنیا میں ہی اپنے لئے سامعین ڈھونڈھ لیتی ہیں مگر پاکستان میں تو مین اسٹریم سیاست اور تجارتی میڈیا چلتے ہی سازشی تھیوریوں کے سہارے ہیں۔ اور تو اور پاکستانی بائیں بازو کے کارکن بھی ایک سے بڑھ کر ایک سازشی تھیوری پیش کرتے نظر آئیں گے۔

سازشی تھیوریوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ذہنی مشقت سے بچ جاتا ہے۔ مشکل سے مشکل سیاسی مسئلہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تاریخی سوال ہمارے سازشی نظریہ دان با آسانی سمجھا دیتے ہیں۔ ذرا سوچئے کارل مارکس کی خشک کتابیں پڑھ کر سرمایہ داری کے بحران کو سمجھنے کی بجائے اگر ایک منٹ میں مبشر لقمان اور اوریا مقبول جان کا ٹاک شو دیکھ کر سمجھ آ جائے کہ عالمی معاشی بحران کی وجہ وہ ’یہودی‘بینکار ہیں جو خفیہ طریقے سے پوری دنیا کا نظام چلا رہے ہیں تو خود سوچئے کون سا نسخہ تیر بہدف ثابت ہو گا۔

پاکستان میں سازشوں کا شور تو میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں مگر بطور نظریہ ان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ گیارہ ستمبر کے بعد دیکھنے کو ملا۔ اسامہ بن لادن کا جسد خاکی ایبٹ آباد سے کسی نامعلوم جگہ پر پہنچ گیا مگر آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت یہی کہے گی کہ گیارہ ستمبر امریکہ نے خود کروایا تھا۔ ویسے گیارہ ستمبر کے بارے میں تو شائد پوری مسلم دنیا ہی اس پاپولر سازشی نظرئے پر یقین کئے رہی کہ یہ امریکہ کی اپنی کارستانی ہے۔

نوے کی دہائی میں تو ہم نے یہ تھیوری بھی سنی تھی کہ کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا چکر دراصل اسرائیل کی سازش تھا۔ 1997ء میں چونکہ کلنٹن نے نیتن یاہو کو ملنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے اسرائیل نے مونیکا لیونسکی کے ذریعے کلنٹن کو مزا چکھایا۔

ملالہ پر حملہ، بمبئی حملہ، سوات میں چاند بی بی کو کوڑے، پی ٹی ایم، بلوچ علیحدگی پسندی…سب کا سب سازش تھا۔ سب سے عجیب سازش سوات میں چاند بی بی کو کوڑے مارنے کا واقعہ تھا۔ طالبان کا ترجمان مسلم خان ٹیلی ویژن پر کہہ رہا تھا کہ کوڑے ہم نے مارے لیکن اوریا مقبول جان بضد تھے کہ کوڑے مارنے کا واقعہ ہوا ہی نہیں، یہ سب پراپیگنڈہ طالبان کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔

کرونا کے بعد سازشی نظریات والوں کی ایک بار پھر چاندی ہونے لگی۔ پہلے اسرائیل اور امریکہ کا نام لیا گیا۔ پھر پتہ چلا اسرائیل تو خود بند ہوا پڑا ہے۔ اتنے میں امریکہ ٹرمپ کی بیوقوفیوں اور عوام دشمن حکمت عملی کی وجہ سے کرونا کا سب سے بڑا شکار بن گیا ہے۔ مسجد، مندر، گرجا گھر، سناگاگ…سب کے سب بند۔

سازشی نظریات وقتی طور پر تھوڑی بہت جذباتی تسکین یا ذہنی مشت زنی کا کام ضرور کرتے ہیں مگر یہ سیاسی کلچر کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جب ہر چیز کسی خفیہ طاقتور قوت کے کھاتے میں ڈال دی جائے تو پھر درست تجزیہ ممکن نہیں رہتا۔ سازشی نظریات دنیا کو ایک ایسی جگہ بنا کر پیش کرتے ہیں جو سازشوں کے ذریعے چل رہی ہے۔ یہاں تو یا صرف سازشوں کے ذریعے حکومت کرنے والا حکمران طبقہ ہے یا محکوم جو مسلسل سازشوں کا شکار رہتے ہیں اور یوں جدوجہد کو ایک بے کار کی چیز بنا دیا جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔

جب ہم سائنسی تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اصل محرکات تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم مسئلے کو سمجھ لیتے ہیں تو پھر اس کا حل بھی سوچتے ہیں۔ یہی ادراک جدوجہد کا محرک بنتا ہے۔

یہ درست ہے کہ سازشیں ہوتی ہیں۔ ابھی چند دن قبل وینزویلا پر خفیہ گوریلا حملہ کروانے کی کوشش کی گئی۔ وینزویلا نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ کیوبا، وینزویلا اور بولیویا حالیہ سالوں میں جبکہ ایران، عراق، شام، انڈونیشیا، چلی اور ارجنٹینا سمیت کتنے ہی ممالک ہیں جہاں سرد جنگ کے دوران امریکی سامراج نے سازشوں کے ذریعے ترقی پسند حکومتوں کے تختے الٹے یا سوشلسٹ تحریکوں کا قتل عام کروایا تا کہ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روکا جاسکے۔ ’افغان جہاد‘ بھی اس کی ایک مثال تھا۔

ہمارے ملک مین بھی کتنی ہی سیاسی سازشوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ بھٹو کا تختہ الٹایا جانا۔ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ بظاہریہ سب اقدامات سازش کی شکل میں ہی اٹھائے گئے تھے۔

بات لیکن یہ ہے کہ یہ سب سازشیں اور ایسی ہی دیگر سازشیں حکمران طبقے کی حکمت عملی کا حصہ ہوتی ہیں۔ وہ صرف سازشوں کی مدد سے حکومت نہیں کر رہے ہوتے۔ ان کی طاقت کا اصل ماخذ وہ ادارے اور ڈھانچے ہوتے ہیں جن کو ریاست، سرمایہ اور ذرائع تشدد پر اجارہ داری (یعنی فوج اور پولیس)کہا جاتا ہے۔ امریکہ اس لئے سامراج نہیں ہے کہ وہ کامیابی سے سازشیں کر کے سامراج بن گیا ہے بلکہ اس کی سازشیں اس لئے کامیاب ہو جاتی ہیں کہ وہ سامراج ہے۔ اسی طرح بھٹو یا بے نظیر کے خلاف کچھ سازشیں اس لئے کامیاب نہیں ہوئیں کہ جنرل ضیا، جنرل گل حمید یا جنرل مشرف بہت زیادہ چالاک تھے۔ ان تمام جرنیلوں کی طاقت کا ماخذ ہمیں معلوم ہے۔ بھٹو اور بے نظیر کی طاقت کا ماخذ عوام تھے جنہیں ان دونوں نے کبھی سائنسی انداز میں منظم نہیں کیا ورنہ جرنیلی سازشیں کامیاب نہ ہوتیں۔

اگر ہمارے پاس تاریخ کا شعور ہو اور طبقاتی تجزیے کی صلاحیت ہو تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ اگر بعض ملکوں میں ترقی پسند یا اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب رہا تو ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اسے نہ صرف ویت نام میں شکست ہوئی بلکہ اپنے پڑوس میں وہ کاسترو کو شکست نہ دے سکا۔ امریکہ کی طاقت کام آئی نہ سازشیں۔ ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے عراق اور افغانستان میں امریکہ کو پسپائی کرنا پڑ رہی ہے۔

اسی طرح ہم نے دیکھا کہ جنرل ایوب جو خود کو فیلڈ مارشل کہتا تھا یا جنرل یحیٰ کو استعفے دینا پڑے۔ جنرل مشرف بھی اب ملک میں واپس نہیں آ سکتا۔ مندرجہ بالا سارے واقعات کو سائنسی سوچ رکھنے والے دانشور اور سیاسی کارکن طبقاتی جدوجہد، بیلنس آف فورسز (طاقتوں کا توازن)، معروضی حالات اور عوامی شعور کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن ایسے سازشی نظریہ دانوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو ان تمام واقعات کو کسی نہ کسی سازش کا نتیجہ بنا کر بتا دیں گے۔

تو پھر ٹھیک کون ہوا؟ یہ بات کیسے پتہ چلے گی کہ کون درست ہے۔

آسان سا جواب ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ منطق اور دلیل کسے کہتے ہیں تو ہم سازشی نظریات کے چکر میں نہیں پڑتے۔ منطق ثبوت مانگتی ہے یا ماضی میں حاصل کئے گئے علم کی روشنی میں نتیجہ اخذ کرتی ہے۔

اس کے بر عکس سازشی نظریات کی بنیاد عمومی تعصبات، نصف جھوٹ اور نصف سچ پر رکھی جاتی ہے۔ ان کے پاس کبھی سائنسی ثبوت نہ ہوں گے۔

منطق اور تحقیق کا سائنسی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ آپ مخالف دلائل کا تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔ اگر آپ مخالف دلائل کو رد نہیں کر پا رہے تو آپ کا موقف کمزور ہو جاتا ہے۔ سازشی نظریات میں ایسا کوئی تکلف نہیں برتا جاتا۔ بس دعویٰ کر دیا جاتا ہے۔ جو ان سازشی نظریات سے اختلاف کرے، ثبوت بھی وہی اکٹھا کرتا پھرے۔

تو پھرسوشلسٹ موقف کیا ہونا چاہئے؟

سوشلسٹ موقف بالکل واضح ہے۔ حالات و واقعات کا منطقی انداز میں تجزیہ کیا جائے۔ ذہن میں رکھا جائے کہ طاقت کا ماخذ سازش نہیں، نظام ہے۔ طاقتور سے طاقتور ترین نظام کو انقلابی جدوجہد سے شکست دی جا سکتی ہے۔ مقدس ترین جھوٹ کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ خفیہ ترین سازش کو ناکام کیا جا سکتا ہے۔

سوشلسٹوں کو سازشی نظریات کی اس لئے بھی مخالفت کرنی چاہئے کہ ایسے نظریات عموماً اقلیتوں کے خلاف ظلم ڈھانے، ان کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

کرونا سے تو یہ سبق بھی مل رہا ہے کہ حکمران اپنی نالائقیاں چھپانے کے لئے بھی سازشی نظریات کا سہارا لیتے ہیں۔ آج کل ٹرمپ چین کو اور چین امریکہ کو کرونا پھیلانے کا الزام دے رہاہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اپنے اپنے ملک کے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کرنے والی چینی بیوروکریسی اور ٹرمپ انتظامیہ کی پھیلائی جانے والی سازشی تھیوریوں پر کان دھرنے کی بجائے ان دونوں کو چلو بھر پانی پیش کیا جانا چاہئے۔ ویسے ان دونوں کے جرائم اتنے بڑے ہیں کہ چلو بھر کیا سات سمندروں کا پانی بھی ناکافی ہوگا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔