پاکستان

ملک ریاض تو علامت ہے، وحشی تو یہ نظام ہے

عمار علی جان

ملک ریاض محض ایک انسان کا نام نہیں۔ ملک ریاض ہماری زوال پذیر اشرافیہ کی علامت ہے۔ اپنی دولت کے بل بوتے پر اس نے اس ملک کی سیاست، عدالت اور فوج کو مٹھی میں لے رکھا ہے۔

یاد ہے وہ اسکینڈل کہ ملک ریاض نے سپریم کورٹ سے مرضی کے فیصلے لینے کے لئے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کو رشوت دی تھی؟ یہ بھی یاد ہو گا کہ ملک ریاض نے پی پی پی کی قیادت کو لاہور میں بلاول ہاؤس کا تحفہ دیا تھا تا کہ کراچی میں جب زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے بحریہ ٹاؤن بنایا جائے تو سندھ میں پی پی پی حکومت خاموش رہے۔

یہ بھی معلوم ہو گا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملک ریاض کے تعلقات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ریٹائرڈ جرنیلوں کے لئے ایک سنہری موقع بن گیا ہے۔

ان سب کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے خیرات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک طرف بحریہ کے لنگر تو دوسری طرف بڑی بڑی مساجد کی تعمیر۔ خیرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے حق تو غصب کر لیں لیکن ان پر رحم و کرم کرتے رہے ہیں۔ حقوق کا مطلب ہوتا ہے برابری۔ خیرات کا مطلب ہے کہ امیر (جو غریبوں کو لوٹ کر امیر ہوا ہے) اپنی لوٹ مار سے غریبوں کو کچھ حصہ دے کر اپنے لئے نیک نامی بھی کمائے اور لوٹ مار کا نظام بھی چلتا رہے۔

ملک ریاض اس ملک کی اشرافیہ میں پائی جانے والی ہر بیماری کی علامت ہے: اندھا دھند کرپشن، عام لوگوں کے مفاد کو پاؤں تلے کچلنا اور جھوٹی انا کی تسکین کے لئے جاگیردار سٹائل میں بدلے لینا۔

ایسے میں حیرت کیسی اگر ملک ریاض کے پالتو غنڈے ایک خاندانی معاملے کو نپٹانے کے لئے دروازے توڑ کر کسی کے گھر میں گھس گئے۔ ملک ریاض کے بدمعاشوں نے کراچی کے مضافات میں ان محنت کشوں پر اس سے کہیں بڑے ظلم ڈھائے ہیں جن کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور صدیوں سے اپنی زمینوں پر آباد لوگ بے گھر ہو گئے۔

ملک ریاض کی خوبی یہ ہے کہ وہ سول ملٹری تقسیم سے بھی بالا تر ہے اور مذہبی و لبرل تقسیم سے بھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں زمین، دولت اور تشدد ہی ہر چیز کا ماخذ ہیں۔ یہ تینوں چیزیں آپ کے پاس ہیں تو آپ کسی بھی شہری کو بے عزت کریں، اس کی ٹانگیں توڑ دیں، جان سے مار دیں…کوئی پوچھنے والا نہیں۔

عام شہریوں اور پاکستانی براہمنوں کے مابین دولت کی ذات ہی تو حائل ہے۔

اگر ملک ریاض اس ملک کی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی علامت ہے تو ایسے افراد کے خلاف جدوجہد کا مطلب ہے اس طاقت کے نظام کے خلاف جدوجہد جو ایسے قابلِ نفرت کرداروں کو جنم دیتا ہے۔

کرونا بحران کے دوران جب ہم نے ’لیبر ریلیف کمپئین‘ شروع کی تو ہم نے دیکھا کہ کیسے مل مالکوں نے دھڑا دھڑ مزدوروں کو برطرف کیا ہے اور تنخواہیں تک ادا نہیں کیں۔ جب مزدور احتجاج کرتے ہیں تو ان پر پولیس کے ذریعے تشدد کرایا جاتا ہے۔ گویا اشرافیہ کو اچھے سے علم ہے کہ قانون کو عوام کے خلاف کیسے استعمال کرنا ہے۔

طاقت کے اس نظام سے لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ عام لوگوں کی سیاست کو پروان چڑھایا جائے۔ ایک ایسی سیاست جو عام انسان کے مفاد کو ترجیح دے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہماری اشرافیہ اس معاشرے میں بچی کھچی تہذیب کو بھی تباہ کر دے گی۔

Ammar Ali Jan
+ posts

عمار علی جان حقوق خلق موومنٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔