شاعری

’خار جو بوئے تھے، وہ اب اگنے لگے ہیں‘

قیصرعباس

(چار قطعات)

اترے ہو سنگھاسن سے تو اب د ھیان میں رکھنا
ڈھلتی ہوئی راتوں کے قدم رکنے لگے ہیں
نکلے ہو تو ہر ایک قدم سوچ کے رکھنا
وہ خار جو بوئے تھے وہ اب اگنے لگے ہیں


شاہ زادوں کی طبیعت لے کر
گر رہے ہیں سنبھل رہے ہیں ہم
شہ سواری مزاج ہے اپنا
ریگ زاروں پہ چل رہے ہیں ہم


ایک تفریق مسلسل ہے جہاں
صحن گلشن بھی یہاں خار بھی ہے
اک طرف خاک اڑاتی بستی
اک طرف قصر شہر یار بھی ہے


پھول کو زیر سناں رکھتے ہیں
سنگ ریزوں کی زباں رکھتے ہیں
دکھ بھی دیتے ہیں انہیں کو ہم لوگ
جن کو نزد رگ جاں رکھتے ہیں

+ posts