نقطہ نظر

بالی وڈ میں ’یونین لیڈر‘

عدنان فاروق

مزدور، مزدوروں کا بھائی چارہ، سیٹھوں کی مزدور دشمنی اور مزدوروں کے درمیان موجود غدار…بھوک، استحصال، بیماری اور اوپر سے خوف: مل مالکان کا خوف، بے روزگاری کا خوف، سر سے چھت چھن جانے کا خوف۔ اوپر سے سرکاری ملازمین کی کرپشن، سنگدلی اور ناانصافی۔

یہ سب کچھ مزدوروں کی زندگی سے شناسا لوگوں کے لئے کوئی نیا منظر نہیں ہے لیکن اسے ایک فلم کے منظر کے طور پر فلمانا ڈائریکٹر سنجے پاٹِل کا ایک کمال ہے جسے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم’یونین لیڈر‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

فلم ایک کیمیکل پلانٹ سے شروع ہوتی ہے جہاں ایمانداری، محنت کے ساتھ کام کرتے ہوے مزدور دکھائے جاتے ہیں۔ ادھر، کیمیکل پلانٹ میں مالکان کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں لیکن یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے مزدوروں میں بھی ایک ’اشرافیہ‘ صرف اس بنا پر جنم لیتی ہے کہ وہ مالکان کی کاسہ لیس ہے۔ فلم کی طوالت 105 منٹ ہے اور بنیادی طور پریہ ایک نوجوان جے کی کہانی ہے، جس نیاپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے تعلیم کا اپنا خواب ترک کر دیا۔

جے گویلاپولو کیمیکلز نامی کرومیم سلفیٹ پلانٹ میں دس سال سے پلانٹ آپریٹر ہیں۔ جے کا بیٹا پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔ وہ مستقبل میں اسے بطور ڈاکٹر دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اسے گھریلو اور بیٹے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ادھر پلانٹ میں صحت دشمن حالات اور مالکان کے ظلم ست تنگ آ کر وہ یونین میں متحرک ہوتا ہے۔ یونین بنیادی طور پر پاکٹ یونین تھی جسے جے انقلابی یونین بنا دیتا ہے۔ مجبوراً لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے مگر لیبر ڈیپارٹمنٹ والوں کو رشوت دے کر با آسانی خریدا جا سکتا ہے۔ جدوجہد عدالتی کاروائی تک جا پہنچتی ہے۔ آخر میں مزدوروں کو عدالت سے انصاف ملتا ہے۔

فلم کی اچھی بات یہ ہے کہ اس کے کردار حقیقت سے میل کھاتے ہیں۔ جے کو ہی لیجئے۔ جے نے اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے تعلیم کا اپنا خواب ترک کردیا لیکن وہ غربت کے اس چکر کو ختم کرنے میں اور اپنے کنبے کے لئے بہتر زندگی فراہم کرنے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آتا۔

ادھر، اپنے سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے وہ صرف اپنے بچے کی تعلیم اور بہتر مستقبل کے لئے فکر مند نہیں، وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے بچوں اور ان کی صحت کے لئے بھی اتنا ہی فکر مند ہے۔

غربت میں رہتے ہوئے اور موت کے بڑھتے ہوئے امکانات کا سامنا کرتے ہوئے، جے کو بھوک اور غربت اور ناانصاری ہی کا نہیں بلکہ کارپوریٹ لالچ اور جان سے جانے کا خوف بھی تھا، اس کا ایک ساتھی اسی سلسلہ میں مالکان کے لالچ کی بھینٹ چڑھ کر اپنی زندگی گنوا بیٹھا تھا اور اسی وجہ سے اس نے مزدوروں کی یونین میں اپنا حصہ ڈالا۔

فلم دکھاتی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، اجتماعی کوشش سے اسے بدلا جا سکتا ہے اور کسی مزدور کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہئے۔ فلم کے ہدایتکار اور ڈایئریکٹر سنجے پال ہیں جو کہ خود بھی ایک انجینئر ہیں اور وہ مالکان اور مزدوروں کے باہمی تعلق اور فیکٹریوں میں ہونے والی بد عنوانیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، خاص طورپر ایسی بد عنوانیاں جن سے چشم پوشی انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے (فلم دیکھتے ہوئے بار بار کراچی کی بلدیہ فیکٹری ذہن میں آتی ہے)۔

ہاں البتہ مزدور مسائل کا حتمی حل یہ بتایا گیا ہے کہ عدالت (یعنی) قانون سے رجوع کرو۔ انقلاب کے ذریعے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات نہیں کی گئی۔ بہر حال یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے کہ لگ بھگ چار پانچ دہائیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر سینما سکرین پر مزدور طبقے کی زندگیاں بھی فلم کا موضوع بنی ہیں۔ ’یونین لیڈر‘ کی شکل میں بالی وڈ کے اندر مزدور کی واپسی بامعنی انٹرٹین منٹ کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے۔

Adnan Farooq
+ posts

عدنان فاروق ایک صحافی اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں۔