پاکستان

حفیظ شیخ کے کارنامے (پہلا حصہ)

فاروق طارق

نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ ماضی میں 2003ء سے 2006ء تک جنرل مشرف کے دورِ آمریت میں نج کاری کے وفاقی وزیر تھے۔ بعد ازاں وہ 2010ء سے 2013ء تک آصف زرداری کے دور میں فنانس کے وفاقی وزیر رہے۔ وہ اس عرصہ میں سینیٹ کے ممبر بھی تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی سے سرکاری اداروں کی اونے پونے داموں فروخت انہی کے دور میں ہوئی۔

حفیظ شیخ کو اس وقت ایک کھلا مینڈیٹ اس وقت کے امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیز نے دیا تھا کہ کھل کر سرکاری ادارے بیچو۔ درحقیقت یہ دونوں حضرات مشرف آمریت نے باہر سے منگوائے تھے۔ یہ دونوں کسی کو جواب دہ نہ تھے ماسوائے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اُس وقت کی عسکری اشرافیہ کے۔ پھر جو ہوا وہ پاکستان کے سرکاری اداروں کی ایک تاریخی لوٹ مار تھی۔ ہمارے اندازے کے مطابق ان تین سالوں میں ریاست کو کم از کم 23 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا۔ لوٹ مار اس قدر کھلے بندوں تھی کہ شوکت عزیز نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرا دل چاہتا ہے پاکستان سٹیل مل کو ایک ڈالر میں بیچ دوں۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک پاکستان میں جاری لوٹ مار سے اس قدرخوش تھا کہ اس نے 2005ء میں پاکستان کو پورے ایشیا میں ’’بہترین معاشی اصلاحات‘‘ کرنے والا ملک قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان کو فالو کرو۔

پاکستان سٹیل کی بولی بھی لگ گئی تھی اور اسے بھی اس کے اثاثوں سے کہیں کم قیمت پر بیچا جا رہا تھا اور زمین فری دی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ نے اس کی نج کاری روک دی۔ عدالت اگر مداخلت نہ کرتی تو جو مزید گل حفیظ شیخ اینڈ کمپنی نے کھلانے تھے وہ تاریخی لوٹ مار کے مزید ریکارڈ قائم کرتے۔

یہ حفیظ شیخ کون شخص ہے  جو آمریتوں کا بھی پسندیدہ ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر چلنے والی سویلین حکومتوں کا بھی؟

ڈاکٹر حفیظ شیخ ایک معروف ’معاشی ہٹ مین‘ (Economic Hitman) ہے۔ وہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک میں کام کر چکا ہے۔ امریکی شہر بوسٹن جو عالمی سطح پر اکنامک ہٹ مین پیدا کرنے میں مشہور ہے، میں حفیظ شیخ نے اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اس کی نظریاتی تربیت بھی وہیں ہوئی۔ اسی شہر کے نیولبرل معیشت دانوں نے لاطینی امریکہ کے مختلف ملکوں میں 1980ء کی دہائی سے نیو لبرل ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے پر حکومتوں کو مجبور کیا تھا۔ نج کاری کو بیمار معیشتوں کے لئے معاشی دوائی کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ نتیجہ ان تمام ملکوں میں معاشی و سماجی تباہی اور معیشتوں کے دیوالیہ پن کی صورت میں نکلا۔ قرضہ جات انتہائی حدوں کو پہنچ گئے، بیروزگاری اور معاشی عدم مساوات کی بھی انتہا ہو گئی اور پھر اس کے خلاف عوامی تحریکوں نے جنم لیا۔

حفیظ شیخ کی اپنی ایک پرائیویٹ ایکویٹی فرم بھی ہے جو پہلے نیو سلک روٹ کہلاتی تھی۔ بعد میں اس فرم کا نام ’Rivendell PE LLC‘ رکھ دیا گیا۔ اس فرم کے لاہور کے بیکن ہاؤس سکول سسٹم میں بڑے شئیر ہیں۔ اور اس کے علاوہ بھارت میں بھی میڈیا اور ٹیلی کام کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہے۔

پیپلز پارٹی کے دور میں جس طرح مہنگائی کو آسمانوں تک پہنچایا گیا اور لوڈ شیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا عذاب عوام پر نازل ہوا اس کا سہرا پارٹی قیادت کیساتھ ساتھ حفیظ شیخ کے سر بھی جاتا ہے۔ وہ اداروں کو بیچنے اور قرضے لینے میں بہت مصروف رہے اور عوام بجلی کو ترستے رہے۔ ملک کا قرضہ دوگنا ہو گیا۔

مشرف دور میں حفیظ شیخ کے اپنے مطابق انہوں نے تین سالوں میں 417 ارب روپے کے قومی اثاثے بیچے۔ مگر اس دورمیں خاطر خواہ ترقی کا کوئی ایک پراجیکٹ بھی نظر نہیں آتا۔ اخر اتنی بڑی رقم کدھر گئی؟ ظاہر ہے یہ پیسے عالمی مالیاتی اداروں کو قرضہ جات کی واپسی اور سرکاری افسر شاہی کی عیاشیوں میں لگ گئے۔ ایک بڑا حصہ مشرف اور اس کے حواریوں میں تقسیم ہوا۔ موصوف کا اپنا حصہ بھی اچھا خاصا ہو گا۔

 جو ادارے ’’بیچ‘‘گئے وہ درحقیقت انہوں نے اونے پونے داموں اپنی قریبی ساتھیوں کے حوالے ہی کیے۔ دسمبر 2004ء میں آغا خان فاؤنڈیشن کو حبیب بینک کے 51 فیصد شیئر صرف 22 ارب میں فروخت کیے گئے۔ اس وقت حبیب بینک کے اپنے ڈیکلیئرڈ اثاثے 570 ارب روپے کے تھے۔  اس وقت حبیب بینک کی ملک بھر میں 1437 برانچیں تھیں۔ اور ملک سے باہر 26 ملکوں میں 40 برانچیں اس کے علاوہ تھیں۔

ایک اور بینک یونائیٹڈ بینک تھا جسے حفیظ شیخ نے صرف 13 ارب روپے میں بیچ دیا تھا۔ ان دو بینکوں کی فروخت آج تک ملک کے بڑے مالیاتی سکینڈلوں میں سے ایک ہے۔ جسے کمرشل میڈیا مکمل طور پر نظر انداز کرتا آیا ہے۔

پھر وہ ہوا جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کو موصوف نے صرف 2.59 ارب ڈالر میں بیچ دیا۔ اور یہ بھی طے کر دیا کہ کچھ رقم ابھی دے دیں باقی قسطوں میں دیتے رہیں۔ ابھی تک 800 ملین ڈالر نہیں ملے۔ اتصلات کہتا ہے کہ تمام اثاثے ہمارے حوالے کرو۔ حالانکہ وہ صرف 26 فیصد شیئرز کے مالک ہیں۔ مگر اثاثے سو فیصد لینا چاہتے ہیں۔

سب سے بڑا نقصان مزدوروں کا ہوا۔ فاروق لغاری وزیر مواصلات تھا، حفیظ شیخ نج کاری کا وزیر تھا، مشرف صدر تھا۔ ان تینوں نے مل کر محنت کشوں کی ہڑتال کو فوج کی مدد سے تمام ایکسچینجوں پر قبضہ کر کے ختم کرا دیا اور ادارہ بیچ دیا۔ یہ وعدہ تھا کہ کوئی محنت کش بے روزگار نہیں ہو گا۔ ستر ہزار اس وقت کام کرتے تھے آج نج کاری کے 12 سال بعد صرف 7000 رہ گئے ہیں۔ یہ ادارہ اس وقت تیس ارب روپے سالانہ منافع دیتا تھا جب اسے اتصلات کے حوالے کیا گیا تھا۔ یعنی وہ دلیل کہ گھاٹے والے ادارے بیچیں گے یہاں کام نہیں کرتی۔

اب حفیظ شیخ پی ٹی سی ایل کے بقیہ اثاثے اتصالات کے حوالے کرنے آیا ہے۔ اور معلوم نہیں کہ 800 ملین ڈالر بھی ملیں گے یا نہیں۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کو صرف 16 ارب روپے میں بیچا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ نئی سرمایہ کاری کریں گے، بجلی بنائیں گے۔ اس کے برعکس حکومت سے ابھی تک سبسڈی لیتے ہیں اور رعایتی نرخوں پر گیس خریدتے ہیں۔ بجلی کے تاریں تک بیچ کے کھا گئے ہیں۔

میر پور ماتھیلو میں پاک سعودی فرٹیلازر کو صرف آٹھ ارب روپے میں فوجی فاؤنڈیشن کے حوالے کیا گیا۔ اس وقت اس کا سالانہ منافع 4 ارب روپے تھا۔ ملتان میں پاک عرب فرٹیلائزر کو صرف 13 ارب روپے میں بیچ دیا گیا۔ اس وقت اس کی زمین کی ملکیت کی قیمت 40 ارب روپے تھی۔

 اس حفیظ شیخ کے ہاتھوں ریاستی اداروں کی لوٹ سیل کی لمبی کہانی ہے۔ اگلی قسط میں کچھ مزید تفصیلات کیساتھ  پیپلز پارٹی دور میں موصوف کے کارناموں کا جائزہ لیں گے۔


مضمون کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔


 

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔