فاروق سلہریا
سرمایہ دار میڈیا اور لبرل نظریات رکھنے والے پروفیسر حضرات جب نام نہاد ڈیجیٹل سرمایہ داری اورگلوبلائزیشن کی کامیابیوں کی مثال دیتے ہیں تو ایک نام ایمازون (Amazon) کمپنی اور اس کے مالک جیف بیزوس (Jeff Bezos)کا بھی لیا جاتا ہے۔ آن لائن سٹور کے طور پر ایمازون بلا شبہ ایک عالمی اجارہ داری بن چکی ہے جبکہ اس کا مالک جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ بات کم ہی سننے میں آتی ہے کہ کامیابی اور دولت مندی کی اس چکا چوند کہانی کے پیچھے مزدور کا نا قابلِ بیان استحصال اور ٹیکس چوری کی طویل کہانیاں پوشیدہ ہیں۔
لاطینی امریکہ کے معروف چینل ’ٹیلی صور‘ (جسے ہوگو شاویز اور لاطینی امریکہ کی دیگر ترقی پسند حکومتوں نے شروع کیا) کے مطابق ایمازون خود کشیوں کی فیکٹری ہے۔
ٹیلی صور (teleSUR) کی رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال میں امریکہ کے اندر ایما زون کے مختلف وئیر ہاوسز سے ایمر جنسی سروس کو 189 دفعہ کال کیا گیا۔ بعض اوقات یہ کال کسی ایسے مزدور کی جان بچانے کے لئے کی گئی جس نے خود کشی کی کوشش کی یا کسی مزدور کو زبردست ذہنی دباؤ کا سامنا تھا۔ ایمرجنسی سروس سے مدد بلانے کے لئے 46 مختلف وئیر ہاوسز سے کال کی گئی۔
ایمازون اپنے بد ترین اوقاتِ کار کے لئے بدنام ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس بات کا بھی حساب رکھا جاتا ہے کہ کوئی کتنی دفعہ باتھ روم گیا ہے۔ مزدوروں کی ایسے نگرانی کی جاتی ہے جیسے وہ روبوٹ ہوں۔
اگر آپ نے ہالی ووُڈ کے معروف مارکسی ہدایت کار اور اداکار چارلی چپلن کی مشہور فلم ”ماڈرن ٹائمز“ دیکھی ہے تو آپ کو وہ منظر یاد ہو گا جس میں چارلی چپلن نے بیسویں صدی کے اوائل میں مغربی سرمایہ داری کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں بتایا ہے کہ فیکٹری مالکوں نے باتھ روم میں بھی کیمرے لگا رکھے ہیں تا کہ مزدور کو پیشاب کرنے کی سہولت بھی میسر نہ رہے۔گویا جس قسم کا انسان دشمن سلوک روا رکھ کے سو سال پہلے سرمایہ دار منافع کما رہے تھے‘ وہی حالات بنا کے ایمازون ’کامیابیاں‘ حاصل کر رہا ہے۔
ایمازون میں برے اوقاتِ کار کے خلاف پچھلے سال یورپی مزدوروں نے بلیک فرائڈے (جس کا رواج اب پاکستان میں بھی چل نکلا ہے) کے موقع پر ہڑتال کر دی۔
لیکن سرمایہ داری مزدوروں کے محض فوری استحصال سے ترقی نہیں کرتی۔ سرمائے میں اضافے کے لئے لوٹ مار بھی ضروری ہے۔ ایمازون کے مالک جیف بیزوس کو یہ کھلا راز اچھی طرح معلوم ہے لہٰذا اس میں حیرت کیسی کہ 2018 ء میں ایمازون نے ایک ڈالر بھی فیڈرل ٹیکس نہیں دیا حالانکہ کمپنی کا منافع 11 ارب ڈالر تھا۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ کمپنی نے 146 ملین ڈالر کی ٹیکس چھوٹ بھی حاصل کی۔ ہوا یوں کہ کمپنی نے فیڈرل ٹیکس نظام میں موجود قانونی سقم اور خلا کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس بچا لیا۔ اس کام کے لئے یقینا کمپنی کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ ملک کے مہنگے ترین وکیل اور اکاؤنٹینٹ کی خدمات خرید سکتی ہے۔
میڈیا ایسی خبریں کیوں چھپاتا ہے؟
جیف بیزوس کی مثال لیجئے۔ جیب میں پیسہ آتے ہی جیف صاحب نے 250 ملین ڈالر میں امریکہ کا اہم ترین اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ خرید لیا۔ اگر پاکستانی پس منظر سے مثال دی جائے تو اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ نوائے وقت کے مالک نظامی خاندان کے خلاف جنگ گروپ کا مالک میر خلیل کا خاندان ایسی خبریں شائع نہیں کرے گا جس سے نوائے وقت میں جاری استحصال کو بے نقاب کیا گیا ہو۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔