پاکستان

دانشوروں، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق اور انتہا پسندانہ مائنڈ سیٹ

ایوب ملک

ریاستیں تاریخی طور پر کوششیں کرتی رہی ہیں کہ علم پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے معاشرے کے ذہن کو ریاستی نظریات کے مطابق ڈھال لیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح قوم پرستی اور حب الوطنی کے خیالات کے تحت قوموں میں فخر اور برتری کے احساسات ابھار کر نسل پرستی کی تشکیل کی گئی جس کی وجہ سے یورپین اقوام پہلی اور دوسری جنگ میں تباہ کاریوں کا شکار ہوئے لیکن آج یورپین قوموں کو اس بات کا احساس ضرور ہے کہ تاریخ کے ذریعے کس طرح قوموں میں نفرت، عناد اور دشمنی پیدا کرکے ایک قوم کے ہیرو دوسروں کے لیے غاصب اور ظالم بن جاتے ہیں۔

آج ہندوستان میں ہندوتوا کے نظریے کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ ویدک علم کو سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جا رہا ہے اور علمِ نجوم کو سائنس کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ جب تاریخ قومی نکتہ نظر سے لکھی جاتی ہے تو وہ جماعتیں اور گروہ جوکہ قوم سے خارج ہوتے ہیں اور اقلیت کہلاتے ہیں انہیں اس قومی تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور اگر قوم کی بنیاد عقائد پر ہو تو دوسرے مذاہب کے لوگ اقلیت بن کر کنارے لگا دیے جاتے ہیں۔ یہی صورت لسانی اور قوم پرستی کی ہے لیکن یہ صورت حال اس وقت انتشار کی شکل اختیار کر لیتی ہے جب عورتوں کو بھی تاریخ سے خارج کر کے انہیں بھلا دیا جاتا ہے اور ان کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں تاریخ کے صفحات سے گم کر دیا جاتا ہے۔

ایسی تاریخ کے نتیجے میں طالب علم اقلیتوں کے مذہب، زبان اور کلچر سے ناواقف رہتے ہیں اور ان میں شک و شبہات اور تعصب پیدا ہوتا ہے اور یوں اقلیتیں ہر وقت اکثریت کی جانب سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ ہماری تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں عورتوں، ہندؤں، عیسائیوں، سکھوں اور مزدوروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی جاتیں۔ طلبہ کو نہیں معلوم ہوتا کہ ہولی، دیوالی، دوسہرے اور اسی طرح کے اور تہواروں کی کیا اہمیت ہے۔

پاکستان میں ریاستی نصابی کتب کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں کو ایسا شعور دیا جا رہا ہے جس کی گرفت سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے اور یوں نوجوانوں میں تنقیدی و تاریخی شعور، امن و آتشی پیدا ہونے کی بجائے نفرت و عناد پیدا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں امر جلیل، ڈاکٹر مبارک علی، پرویز ہود بھائی اور ارشد محمود جیسے دانشور جب امن، انسان دوستی، رواداری اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان کی آوازیں تعصب، تنگ نظری، دہشت گردی اور نفرت کی فضا میں دب جاتی ہیں۔

یہ انتہائی افسوسناک امرہے کہ معروف ترقی پسند مصنف امر جلیل کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کی فضاقائم کی جا رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں دہشت گردجن کے ہاتھوں ہزاروں معصوموں کا خون بہا وہ آزاد گھوم رہے ہیں لیکن دانشور، ادیب، شاعر، ترقی پسند کارکنان اور عورتوں کے حقوق کے علمبردار متحرک کارکنوں کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور ان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان جیسے سماج میں فرقہ وارانہ قوانین کا سہارہ لینا انتہائی خطرناک کھیل ہے جس سے پورے معاشرے کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ جو عناصر ایسا کر رہے ہیں وہ اس سماج کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ امر جلیل نے اپنی پوری زندگی مظلوم طبقات کی حمایت میں گزاری ہے اور ان کا قلم ہمیشہ باطل اور بالادست قوتوں کے خلاف اٹھا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ حیدرآباد میں مظاہرے کے دوران ایک مذہبی رہنما نے امر جلیل کی جان لینے والے کے لیے پچاس لاکھ انعام کا اعلان کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی بھی نہیں کی گئی۔ امرجلیل کی آواز کو یوں ظلم و جبر اور دھونس کے ذریعے دبانا دراصل رجعت پسند قوتوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔

اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج پاکستانی سماج میں تنزل پزیری کی اصل وجہ یہی رجعت پسند قوتیں ہیں جنہوں نے حال ہی میں عورت مارچ کے منتظمین کو دھمکیاں دیں اور ان کے خلاف پاکستان بھر میں مقدمات درج کرائے۔ روزنامہ امت کی طرف سے تو خواتین کارکنان کے خلاف جو نازیبا زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی شرمناک ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ خواتین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے یہ لوگ سب کچھ عقائد کی سربلندی کے نعرے تلے کر رہے ہیں۔ دراصل یہ نازیبا زبان ان کی ذہنی و اخلاقی پستی کو بھی ظاہر کرتی ہے جو بدقسمتی سے اردو صحافت میں جنرل ضیا الحق کے دور سے شروع ہوئی۔

امت اخبار کے اس جذباتی پروپیگنڈے نے دراصل خواتین ایکٹیوسٹس کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مدیران کی تنظیم کو اس نازیبا زبان کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے امت اخبار کو پاکستانی خواتین سے معافی مانگنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ اور سائبر کرائم کے اداروں کو بھی چاہیے کہ خواتین کے خلاف پروپیگنڈے میں استعمال ہونے والی جعلی ویڈیوز اور نعروں کی تفتیش کرتے ہوئے ان عناصر کے خلاف بھروپور کاروائی کرنی چاہیے جن کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے خواتین کارکنا ن کی جانیں خطرات سے لاحق ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اسی ریاستی نظریے کی آڑ میں یکساں تعلیمی نصاب اور ماڈل ٹیکسٹ بک کا مسودہ جاری کیا ہے جو کہ دراصل آئین کے آرٹیکل 22 (1) کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے آٹھ فروری 2021ء کو سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ وزارت تعلیم غیر مسلموں کو ان کے عقائد کے مطابق تعلیم فراہم کرے لیکن اس بابت کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

15 فروری اور پھر 31 مارچ کو سپریم کورٹ نے ایک بار پھر وزارت تعلیم کو آئین کی پاسداری کا حکم دیا لیکن اس بار بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جن محققین نے تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ان نصابی کتب کا بغور جائزہ لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ نصاب صرف اسلامیات کی کتابوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بقیہ نصابی کتب میں بھی اسے شامل کردیا گیا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 22 (1) کی خلاف ورزی ہے۔

آج پاکستان کی سماج تنزلی کی سب سے بڑی وجہ وہ انتہا پسند مائنڈ سیٹ ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ نصاب سے جنونی مواد کو نکالا جائے۔ سائنس کو سائنس کے مضامین کے طور پر پڑھایا جائے اور ریسرچرز کو بین القوامی معیار کے مطابق تربیت دی جائے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں سائنسی ماحول کی بجائے ہر طرف انتہائی پسندی ہی نظر آ رہی ہے اور جو استاد محقق، دانشور اور طالب علم اس ماحول کو چیلنج کرتا ہے وہ یا تو سماجی نفرت کا شکار بنتا ہے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

Ayub Malik
+ posts

ایوب ملک ترقی پسند سیاست کرنے والے ایک سیاسی کارکن، ناشر اور کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوتے ہیں۔