خبریں/تبصرے

افغان میڈیا پر خواتین 24 گھنٹے غائب رہنے کے بعد واپس

یاسمین افغان

افغان میڈیا کی تاریخ 147 سال پرانی ہے، پہلا اخبار ’شمس النہار‘ افغانستان کی پہلی اشاعت تھا جو 1873ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا اور اس کے بعد میڈیا کا منظر آہستہ آہستہ تبدیل ہوا، پہلی ریڈیو نشریات 1920ء میں شروع ہوئیں اور اس کے بعد پہلی ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز 1978ء میں ہوا۔

پھر طالبان آئے اور ٹیلی ویژن کی نشریات بند کر دی گئیں اور صرف ’ریڈیو شریعت‘کی نشریات طالبان کی حکمرانی میں نشر ہو رہی تھیں۔ 2001ء کے بعد سے افغانستان کا میڈیا دوبارہ ابھرا اور افغانستان میں کام کرنے والی ایک صف اؤل کی این جی او ’نائی سپورٹنگ اوپن میڈیا‘کے مطابق ایک موقع پر افغانستان میں 464 میڈیا ادارے کام کر رہے تھے لیکن 2014ء کے بعد سے 240 کے قریب میڈیا اداروں نے مالی بحران کی وجہ سے اپنا کام بند کر دیا۔

افغان خواتین نے طالبان کے زوال کے بعد تفریحی پروگرامات اور خبریں پہنچاتے ہوئے میڈیا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ طالبان کے زوال کے بعد پہلے ریڈیو میں خواتین میزبان تھیں اور کابل میں تقریباً ہر گھر ریڈیو پروگرام سننے کے لیے اپنے ریڈیو کا رخ کرتاتھا۔ ان خواتین میزبانوں کے ساتھ مشہور شخصیات کی طرح سلوک کیا گیا اور ہر کوئی ان کی ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔

طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے نے افغان میڈیا کے مستقبل پر سایہ ڈال دیا ہے۔ لوگوں کے مطابق طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے پہلے دن مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے تک معمول کی نشریات ہوتی تھیں۔

ظہیرا (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات معمول کے مطابق تھیں لیکن شام کے وقت انہوں نے اسلامی پروگرام نشر کرنا شروع کر دیے۔“

بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات تبدیل ہو جائیں گی اور منظر پر چند خواتین کے ساتھ زیادہ رجعت پسند ہو جائیں گی۔

کابل کے رہائشی طاہر (فرضی نام) نے کہا کہ ”جب تک یہ نجی چینل کر سکتے ہیں، انہیں اپنی عام نشریات کی پیروی کرنی چاہیے اور طالبان کا انکار کرنا چاہیے۔“

65 سالہ کابل کی رہائشی شمسیہ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اپنا آپ طالبان کے حوالے نہیں کرنا چاہیے اور مضبوط رہنا چاہیے۔“

سقوط کابل کے بعد پہلے دن ذرائع ابلاغ میں خواتین کی کوئی موجودگی نہیں تھی۔ ہر کوئی انتقام کے خوف سے روپوش ہو گیا، لیکن کابل کی سڑکوں پر طالبان کی آمد کے دوسرے دن ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کی خاتون نیوز کاسٹرز میں سے ایک نے خبریں پڑھیں۔ اسے بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا اور جلد ہی دوسرے نجی چینلوں نے اپنی خواتین صحافیوں اور میزبانوں کو اسکرینوں پر واپس لانا شروع کر دیا۔ خواتین صحافیوں نے خبروں کی کوریج اور طالبان سپاہیوں اور کمانڈروں کے انٹرویو شروع کر دیئے۔

شمسیہ نے مزید کہا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ یہ مغربی دنیا کے لیے ایک طرح کی راحت ہے اور خوش ہیں کہ دیکھیں طالبان بدل گئے ہیں اور اب خواتین دوبارہ اسکرینوں پر نمودار ہو سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان تبدیل نہیں ہوئے لیکن ہاں یہ خواتین میزبان، صحافی اور یہاں تک کہ مرد صحافی بھی حقیقی ہیرو ہیں کیونکہ وہ منظر عام پر آکر طالبان کو شکست دے رہے ہیں۔ میں انہیں سلام کرنا چاہتی ہوں۔“

یہ سطور تحریر کرتے ہوئے صوبہ ننگرہار میں دو کیمرہ مینوں کو ایک مظاہرے کی کوریج کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جلال آباد کے رہائشی 23 سالہ شاہد (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”میرا پیغام ان تمام لوگوں کو ہے جو سمجھتے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں، آج جلال آباد میں صحافیوں کی پٹائی طالبان کے حقیقی چہرے کو ظاہر کرتی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کی گلابی تصویر ددکھانا بند کریں۔“

جلال آباد کے ایک اور رہائشی فیصل (فرضی نام) نے کہا کہ ”طالبان کے زیر سایہ زندگی میں خوش آمدید، یہ آغاز ہے۔ جیسے ہی افغانستان سے توجہ ہٹے گی، صحافیوں، میڈیا اداروں اور مجموعی طور پر افغانیوں کے لیے زندگی جہنم بن جائے گی۔“

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔