پاکستان

یہ کیا کچھ بیچنے جا رہے ہیں؟

فاروق طارق

اکتیس دسمبر 2019ء تک موجودہ تحریک انصاف حکومت کئی سرکاری اداروں کو بیچنا چاہتی ہے۔ یہ سارے ادارے یا تو منافعے میں ہیں یا ان کی زمینیں انتہائی مہنگی ہیں۔ اداروں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

دو نئے ’RLNG‘ پاور پلانٹس (ہیڈ بلوکی (قصور) اور حویلی بہادر شاہ (جھنگ)) جو 2018ء میں ہی فنکشنل ہوئے تھے اور ان پر تقریباً دو ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے تھے۔ اب انہیں بیچنے پر لگا دیا گیا ہے۔ دونوں انتہائی منافع بخش ادارے ہیں۔

حویلی بہادر شاہ کا پاور پلانٹ جو دنیا میں قابل ترین (Efficient) گردانا جاتا ہے اور 1230 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ا س کا پہلا فیز جو 760 میگاواٹ بجلی بنا سکتا تھا کا افتتاح 18 جولائی 2017ء کو ہوا اور دوسرے فیز (1215 میگاواٹ) کا آغاز مئی 2018ء میں ہوا تھا۔

دوسرا بلوکی پاور پلانٹ چونیاں ضلع قصور میں واقع ہے اور 1223 میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے جون 2018ء میں کام کا آغاز کیا تھا۔

اب دونوں منافع بخش اداروں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کا پلان ہے تاکہ ان کی تجوریاں بھری جا سکیں۔ عوام پہلے ہی بجلی کے پیداواری شعبے کی نجکاری، جس کا آغاز 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا، کا خمیازہ آج تک لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اب یہ نئی عوام دشمن حکومت اس شعبے کی مزید نجکاری کر رہی ہے جس سے گردشی قرضوں کا مسئلہ شدید تر ہی ہو گا اور بجلی مزید مہنگی ہو گی۔

ایک اور ادارہ جو بیچا جا رہا ہے وہ فرسٹ ویمن بینک ہے۔ 1989ء میں بے نظیر بھٹو نے اس بینک کا افتتاح کیا تھا جو عورتوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ اس میں حکومت پاکستان کے 82 فیصد شیئر ہیں جبکہ بقیہ نیشنل بینک، حبیب بینک، مسلم کمرشل بینک، یونائیٹڈ بینک اور الائیڈ بینک کے ہیں۔ اس کا سرمایہ تین ارب روپے ہے۔ دوسرا بینک ایس ایم ای ہے جسے بیچا جا رہا ہے۔ اس بینک کو چھوٹے کاروباری حضرات کی بینکنگ ضروریات پورا کرنے کے لئے 2002ء میں شروع کیا گیا تھا۔

ابھی یکم مئی 2019ء کو عمران خان نے جس کنونشن سنٹر اسلام آباد میں تحریک انصاف کا یوم تاسیس منایا اسے بھی سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اس کا افتتاح 1997ء میں کیا گیا تھا۔ 2220 افراد کے بیٹھنے کی جگہ رکھنے والا یہ جناح کنونشن سنٹر 30 ارب روپے سے زیادہ مالیت کا ہے۔ اس میں 600 کاروں کی پارکنگ کی جگہ ہے۔ 2014ء کے بعد جب سے اسے پرائیویٹ تقاریب کے لئے بھی کرائے پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ منافع میں جا رہا ہے۔ اس جگہ کو بیچنے کی فرمائش 2016ء میں آئی ایم ایف نے نواز لیگ کی حکومت سے کی تھی۔ خیر اب تو مشیر خزانہ ہی آئی ایم ایف کا آ گیا ہے۔

اس کے علاوہ لاہور میں سروس انٹرنیشنل ہوٹل اور سروس ہسپتال کو بھی بیچنے کی خبریں ہیں۔ ایک بڑے سرکاری ہسپتال، جہاں روزانہ ہزاروں غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے، کو منافع خوری کے لئے بیچنا انسانیت کے خلاف کھلے جرم کے مترادف ہے۔

مری پٹرولیم لمیٹڈ کے 18.39 فیصد شیئر بھی بیچنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حفیظ شیخ کو جب وزارت خزانہ کا مشیر بنایا گیا اور ایک فیڈرل وزیر کے مکمل اختیارات دئیے گئے تو ہم نے لکھا تھا کہ یہ نجکاری کرنے آیا ہے۔ جو کام اسد عمر تیزی سے نہ کر سکا وہ اب یہ تجربہ کار نجکار کرنے آیا ہے۔ ریاستی ادارے اونے پونے داموں سرمایہ داروں کے حوالے ہوں گے۔ محنت کشوں کو بڑے پیمانے پہ نکالا جائے گا۔ اور عالمی و مقامی سود خوروں کو ادائیگیاں تیز کی جائیں گی۔

پچھلے ہفتے حفیظ شیخ کو کئی بااختیار کمیٹیوں کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جس میں نجکاری کمیٹی سرفہرست ہے۔

ہسپتالوں کی نجکاری کا اعلان ہوتے ہی ینگ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس نے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ وائی ڈی اے نے سرکاری ہسپتالوں کی ممکنہ نجکاری کے خلاف جنرل ہسپتال لاہور میں پریس کانفرنس میں مجوزہ ’MTI‘ ایکٹ کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ نرسنگ سٹاف اور پیرامیڈیکس کی تنظیموں کے نمائندگان بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کہا گیا کہ ہسپتالوں کی نجکاری محکمہ صحت کے ملازمین پر حملہ ہے اور ڈاکٹر، نرسز اور پیرامیڈیکس اس مکروہ عمل کیخلاف عوامی رابطہ مہم چلائیں گے۔ یہ انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔

ہسپتالوں کی نجکاری اس ملک میں ہو رہی ہے جہاں ہر سال چار لاکھ سے زائد بچے علاج معالجے کی مناسب سہولیات نہ ملنے کے سبب نمونیا، ملیریا اور اسہال جیسی قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ ہر سال بیس ہزار سے زائد عورتیں زچگی کے دوران مناسب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب پاکستان کے نصف بچے نامکمل نشونمار کا شکار ہیں یعنی ان کا قد، وزن اور ذہنی صلاحیت اپنی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔ ملک میں صحت کے انفراسٹرکچر کی قلت اور زبوں حالی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ طبی عملے کی بھی شدید کمی ہے۔

بجائے اس کے کہ حکومت صحت کے شعبے کے بجٹ میں اضافہ کر کے عوام کو وسیع پیمانے پر صحت کی سہولیات فراہم کرے وہ ہسپتالوں کو بیچ کے عوام کے لئے صحت کی سہولیات مزید مہنگی کر رہی ہے۔

یہ عوام دشمن حکومت ایک تربیت یافتہ شخص کو نجکاری کرنے کے لئے اپنے چہیتے وزیر خزانہ کی قربانی دے کر لائی ہے۔ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جانی چاہئے۔ جس طرح 2018ء میں یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں نے اسلام آباد دھرنے کے ذریعے حکومت کو پسپائی پر مجبور کیا تھا۔ اس عمل کو بڑے پیمانے پہ دہرانے کی ضرورت ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔