پاکستان

انار کلی دھماکہ: پشتون اور بلوچ طلبہ کیلئے نئی مصیبتیں، پولیس کیلئے کمائی کا ذریعہ

حارث قدیر

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے معروف کاروباری مرکز انارکلی بازار میں 7 روز قبل ہونے والے دھماکہ کے بعد لاپتہ ہونے والے 3 پشتون طلبہ 2 روز بعد رہا کئے گئے جبکہ 200 سے زائد پشتون اور بلوچ مزدوروں و طلبہ کو پولیس کی جانب سے مختلف تھانوں میں معمولی وقت کیلئے زیر حراست رکھنے کے بعد ایک ہزار سے 10 ہزار روپے تک کی رقوم لے کر رہا کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

پولیس اور تحقیقاتی اداروں کی جانب سے جامعہ پنجاب کے ہاسٹلوں کے علاوہ دیگر ہاسٹلوں میں بھی پشتون اور بلوچ طلبہ کے کمروں کی تلاشیاں لینے کے علاوہ ان کے شناختی کارڈوں کی تصویریں بھی بنائی گئی تھیں۔

بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد مشتبہ دہشت گردوں کے گرفتار کر لئے جانے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں، بعد ازاں معلوم ہوا کہ گرفتار ہونے والے اشخاص دہشت گرد نہیں تھے بلکہ پشتون مزدور تھے۔

2 روز تک لاپتہ رہنے والے عمران ولد شبیر احمد اور آدم ولد محمد علی پنجاب کالج میں سال اول کے طالبعلم ہیں اور ان کی عمریں 17 سے 19 سال بتائی جا رہی ہیں۔ دونوں طالبعلموں کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات مسلم ٹاؤن میں واقع ان کے ہاسٹل سے گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا تھا، تاہم 2 روز بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

’جدوجہد‘ نے دونوں طالبعلموں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم تحقیقات کے خوف اور اہل خانہ کی طرف سے کسی سے بات کرنے سے منع کئے جانے کی وجہ سے ان سے گرفتاری اور رہائی کی تفصیلات معلوم نہیں کی جا سکیں۔

لاہور میں ہی تعلیم حاصل کرنے والے پشتون طالبعلم حسین علی نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پاکستان کے شہری ہیں، ہمارے پاس پاکستان کے ہی شناختی کارڈ موجود ہیں۔ ہم کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے ہوئے۔ لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے والے پشتون اور بلوچ طلبہ ہوں یا پھر مزدوری کی غرض سے آنے والے طلبہ ہوں، سب سے ہی تھانوں میں انٹری کروانے کے نام پر پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’یہاں ہمارے ساتھ کچھ لڑکے تھے جن کی عمریں 14 اور 15 سال کے درمیان تھیں، ان کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے تھے، ان سے انٹری کیلئے شناختی کارڈ مانگے جا رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ نہیں ہے تو واپس جائیں، شناختی کارڈ کے بغیر انٹری نہیں دی جا سکتی۔‘

ایک ہی ملک میں امتیازی سلوک کا شکار ہونے کے احساس کے علاوہ آزادانہ نقل و حرکت کے مسائل میں پھنسے طلبہ کی نہ صرف تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کی نفسیات پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

لاہور سمیت ملک بھر میں کرائے کے مکان یا ہاسٹل میں رہنے والوں کو پولیس تھانہ میں اپنی انٹری کروانی ہوتی ہے۔ تاہم بلوچ اور پشتون طلبہ کیلئے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس ہاسٹل یا کمرے میں رہائش پذیر ہیں اس سے کہیں دوسری جگہ منتقل ہوں، یا عارضی طور پر ہی کسی کے پاس رہنے کیلئے جائیں تو انہیں گرفتار کر لینا ایک معمول ہے۔

حسین علی کہتے ہیں کہ ’کوئی مہمان بھی آ جائے تو اسکی انٹری نہ ہو تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے، پھر بھاری رقم لیکر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے والد یا بھائی بھی آجائیں تو انکی بھی انٹری نہ ہو تو گرفتاری ہو گی۔‘

انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے کون سی سکیورٹی ہو رہی ہے کہ آپ کسی طالبعلم یا مزدور کے مکان یا کمرے میں آئے اسکے والد کو گرفتار کر لو اور ایک ہزار سے 5 ہزار تک رقم لیکر اسکی انٹری کر کے اسے واپس چھوڑ دو۔ یہ سکیورٹی ہے یا کاروبار ہے؟‘

انکا کہنا تھا کہ ’شاید یہ دوسرے علاقوں سے آئے شہریوں کے ساتھ بھی ہوتا ہو لیکن ہم نے جہاں بھی دیکھا ہے پشتونوں کے ساتھ یا بلوچوں کے ساتھ ہی ایسا رویہ دیکھا ہے، دیگر لوگوں کو بھی ہمارے ساتھ آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے۔‘

واضح رہے کہ انارکلی دھماکے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔ اس کے بعد پشتون طلبہ اور مزدوروں کے علاوہ بلوچ طلبہ اور مزدوروں کو بھی تحقیقاتی اداروں اور پولیس کی جانب سے اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لاہور میں ہی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم رہنما مزمل خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’جب بھی حالات خراب ہوتے ہیں تو پشتونوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ بلوچوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ یہ زبان، نسل، پہناوے اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک، رویہ اور قوانین کے امتیازی استعمال کا معاملہ ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’ان کارروائیوں کے دوران مجموعی طور پر 200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان لوگوں کو مختلف تھانوں میں بند رکھا گیا اور کم از کم 1 ہزار روپے فی کس وصول کر کے انہیں رہا کیا گیا۔ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن سے 10 ہزار یا اس سے زیادہ رقم وصول کی گئی ہے۔‘

مزمل کا کہنا تھا کہ ’گرفتار کئے گئے افراد اور طلبہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ کتابیں کون سی پڑھتے ہیں۔ شناختی کارڈوں کی تصویریں بنائی گئیں۔ یہ قومیت کی بنیاد پر ٹارگٹ کرنے والا معاملہ ہے۔ جن حالات سے تنگ آ کر بلوچ اور پشتون طلبہ لاہور جیسے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، انہیں یہاں بھی انہی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں برابر کے شہری تصور نہیں کیا جاتا، پولیس مال غنیمت سمجھتی ہے اور ہر واقعے اور حادثے کے بعد یہ کاروبار شروع کر لیا جاتا ہے۔‘

طلبہ نے تحقیقات اور تفتیش کے نام پر بلوچ اور پشتون طلبہ اور محنت کشوں کو ٹارگٹ کئے جانے کے واقعہ کی مذمت کی ہے اور تفتیش کے نام پر گرفتار کئے گئے طلبہ اور مزدوروں سے بھاری رقوم بطور رشوت لئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مزمل کاکڑ کہتے ہیں کہ ’پشتون اور بلوچ طلبہ کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا، اس لئے یہ پولیس کا آسان ٹارگٹ ہیں کہ جب جی چاہے گرفتار کر کے انکی جیبوں میں جو کچھ ہو وہ ہتھیا کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ اس کاروبار اور لاقانونیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کسی خاص قومیت، کلچر یا پہناوے کو دہشت گردی سے جوڑنے والی نفسیات کو بھی ختم کرنا ہو گا۔‘

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔