خبریں/تبصرے

افغان طالبان کا اقتدار پاکستان میں دہشت گردی کی واحد وجہ نہیں: فارن پالیسی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ’فارن پالیسی‘ کے مطابق پاکستان میں اندرونی دہشت گردی کی بحالی اسلام آباد کیلئے تلخ ضرور ہے لیکن غیر متوقع ہر گز نہیں ہے۔

شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان میں طالبان کی حمایت کی اور اس سے صرف طالبان کو عروج ملا جبکہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان اب افغانستان میں طالبان پر عسکریت پسندگروپوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے، جو پاکستانی ریاست کا تختہ الٹناچاہتے ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق مئی 2021ء سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ حملے ماہ اگست میں ہوئے، جب افغان طالبان کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھال رہے تھے۔

گزشتہ سال پاکستان میں 294 حملے ہوئے جو 2020ء کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ تھے۔ ان حملوں میں 395 افراد ہلاک اور 600 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں سے 104 بلوچستان میں ہوئے، جبکہ 103 خیبرپختونخوا کے شورش زدہ قبائلی اضلاع میں ہوئے۔ ان دونوں علاقوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، بلوچستان کی سرحدیں ایران سے بھی ملتی ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے طویل عرصہ سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پاکستانی فوجی کارروائیوں میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان کے مشرقی صوبوں میں بھگایا گیا تھا۔ تاہم یہ کہا جا رہا تھا کہ ٹی ٹی پی کی طاقت بہت کم ہو چکی ہے، البتہ اسے بدستور ایک خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی تعداد 3 ہزار سے 5 ہزار کے درمیان بتائی ہے۔

تاہم پاکستان کی پریشانیاں صرف افغانستان میں طالبان کے اقتدار پرقبضے کی وجہ سے ہی نہیں ہیں۔ معاشری محرومی، سماجی پسماندگی، بھاری بھرکم سکیورٹی، نسلی قوم پرستی اور قبائلیت کے کاک ٹیل کے درمیان اندرونی عسکریت پسندوں کے خطرات میں شدت آنے کی توقع ہے۔ ملک بھر میں حملے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور میڈیا کے سخت کنٹرول کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts