خبریں/تبصرے

آئزن ہاور نے عشائیے میں نہ بلایا تو کاسترو نے ہوٹل ملازمین کے ساتھ ڈنر کیا

فاروق سلہریا

انقلاب کیوبا کے فوری بعد فیدل کاسترو نے امریکہ کا دوہ کیا۔ اپنے پہلے دورے تک انہوں نے کمیونسٹ ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس لئے اس دورے کو کوئی زیادہ کوریج بھی نہ ملی۔ سال بھر بعد جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے امریکہ آئے تو حالات بدل چکے تھے۔

انہوں نے کیوبا میں امریکی کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ کھل کر سوویت روس کے کیمپ میں جا چکے تھے اور امریکہ کو ”دنیا بھر کا دشمن“ قرار دے چکے تھے۔

اب کی بار وہ امریکہ آئے تو امریکی پریس ان کے پیچھے پڑا ہو اتھا۔ انہوں نے اپنی پچاس کے قریب ساتھیوں سمیت جب شیلبرن ہوٹل میں چیک ان کیا تو پتہ چلا ان سے بہت زیادہ پیسے مانگے جا رہے ہیں۔ کاسترو نے اعلان کیا کہ کیوبن وفد سنٹرل پارک میں خیمے لگا کر رہے گا اور احتجاجاً اقوام متحدہ تک مارچ کرے گا۔

دریں اثنا میلکم ایکس نے مداخلت کی اور نیو یارک کے معروف علاقے ہارلم، جہاں سیاہ فام رہتے ہیں، کے تھریسا ہوٹل میں کیوبن وفد کے رہنے کا بندوبست کر دیا۔ یہ ایک معمولی سا ہوٹل تھا۔

یہاں بالکونی میں کیوبن پرچم لہرا دیا گیا اور فیدل کاسترو ہر روز نیچے جمع ہونے والے ہزاروں سیاہ فام لوگوں کو ہاتھ ہلا کر ان کے پیار محبت کا جواب دیتے۔ ویسے ایک دن 500 کے لگ بھگ مذہبی لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔

ایک شام امریکی صدر آئزن ہاور نے لاطینی امریکہ کے صدور کے اعزاز میں عشائیہ (ڈنر) دیا لیکن جان بوجھ کر فیدل کاسترو کو مدعو نہیں کیا گیا۔

اس عشائیے کے جواب میں کاسترو نے ہوٹل تھریسا کے درجن بھر سیاہ فام ملازمین کو عشائیہ دیا اور ڈنر ہوٹل مزدوروں کے ساتھ کیا۔

یہ ہوتا ہے ہینڈ سم!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔