پاکستان

پاکستان کے گاڈ فادر؟

طارق علی

پاکستانی ہوائی لہروں پر، کھیلوں کے مبصرین اکثر آہیں بھرتے ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم ’ایک بار پھر مشکل میں‘ ہے۔ کرکٹ سے زیادہ تر پاکستانی مذہبی جوش و جذبے والالگاؤ رکھتے ہیں۔ یہی نوحہ پاکستان کی سیاست پر نیم مستقل طور پر لاگو ہوتا ہے۔ رواں ماہ حکومت کے بنیادی حصے میں ایک اور بحران رونما ہوا۔

عدم اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اپنے وزیر اعظم سے محروم ہو گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کیلئے کہا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ غیر معمولی اقدام ضروری تھا کیونکہ امریکہ، اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کرتے ہوئے، ان کی حکومت گرانے کے لیے ایک سافٹ بغاوت کرانے میں مصروف تھا۔ حزب اختلاف نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی قانونی حیثیت پر فیصلہ کرے۔ 7 اپریل کو، پانچ ججوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے اسمبلی کا دوبارہ اجلاس بلانے کی ہدایت کی اور فیصلہ دیا کیا کہ 9 اپریل تک عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا عمل مکمل کرایا جائے۔

ایسی معتبر افواہیں بھی تھیں کہ عمران خان نے اپنے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کی اور اپنے پرانے دوست جنرل فیض حمید کو یہ عہدہ دینے کی کوشش کی (جو کبھی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ تھے) اس کے علاوہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ فوج کا اصرار ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں تھا، تاہم اس حوالے سے مجھے شکوک و شبہات ہیں۔ گھبراہٹ کا شکار سیاستدان اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے (1999ء میں ایسی ہی صورتحال میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو اغوا کرنے کی کوشش کی، ان کا طیارہ فضا میں ہی رکھا گیا اور اسے پاکستان میں اترنے نہ دیا گیا)۔ بہرحال عمران خان کی کوششیں بے سود رہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی اور پی ٹی آئی کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ دوسرے دن پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر شہباز شریف نے نئے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ معزول رہنما کی حمایت کے لیے بڑے شہروں میں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ احتجاج کیلئے جمع ہوئے جن کے نعرے امریکہ مخالف تھے۔

عمران خان ایک زمانے میں پاکستان کے سب سے مقبول کرکٹ کپتان تھے اور 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ایک قومی ہیرو تھے۔ اس حیثیت سے انہیں سیاسی کیریئر شروع کرنے میں مدد ملی لیکن کرکٹ کے برعکس، جہاں نئی نسل سے بھی کچھ اچھے کھلاڑی پیدا ہوئے ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتیں وقت کے ساتھ شاذ و نادر ہی تبدیل ہوتی ہیں۔ خاندانی حکمرانی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ سرمائے کے بڑے ذخائر، جو اکثر غیر قانونی طور پر حاصل کیے جاتے ہیں، خاندان میں موجود رہیں۔

جی ایچ کیو راولپنڈی میں یونیفارم والے امپائرز، جو حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں، کو بھاری مراعات دی جاتی ہیں۔ بھارت میں ایک ریٹائرڈ جنرل نے پچیس سال پہلے مجھ سے ایک بار ٹھنڈی آہ بھر کر کہا تھا کہ ’کاش میں پاکستان میں جنرل ہوتا تو دہلی میں ریٹائرڈ افسروں کے لیے بنے تین بیڈ روم والے اپارٹمنٹ کی دسویں منزل پر اپنی زندگی کے آخری سال نہ گزارتا‘۔

پاکستانی سیاست کے بنیادی ڈھانچے کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ملک میں بنیادی طور پر چار سیاسی بلاکس ہیں اور ایک بہت زیادہ غالب صوبہ…یعنی پنجاب…جس کے ووٹ ہر انتخابی نتیجے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان بلاکس میں دو خاندانی جماعتیں ہیں: پاکستان پیپلز پارٹی، جسے زرداری بھٹو خاندان اور مسلم لیگ(ن)، جسے شریف خاندان چلاتا ہے۔

پہلی جماعت کو اس کے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزام کا سامنا رہا۔ آصف زرداری، جو 2008ء سے 2011ء تک صدر رہے، اس محاذ پر ایک جادوگر تھے۔ کوئی کاغذی پگڈنڈی، کوئی ثبوت نہیں اور اس وجہ سے، کوئی بھی انہیں نیب یا عدالتوں میں لے جانے کے لیے پُرجوش نہیں۔ بہر حال پی پی پی کو اس کی بے شرم منافع خوری سے نقصان پہنچا اور گزشتہ عام انتخابات میں وہ پنجاب کا بلاک نومولود سیاستدان عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی سے ہار گئی۔

اس کے بعد سے زرداری بھٹو خاندان سندھ کے صوبے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ پی پی پی کے موجودہ رہنما نوجوان بلاول بھٹو ہیں، جنہیں ان کی والدہ بے نظیر کے المناک قتل کے بعد ایک طرح سے وراثتی طور پر یہ ذمہ داری دی گئی۔ وہ متحرک طور پر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں مگر سندھ میں غیر موثر ہیں، جسے ایک غاصبانہ جاگیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

کیا شریف خاندان اس سے مختلف ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ اپنے اقتدار کے عروج پر انہوں نے قومی خزانے کی لوٹ مار کو عملی طور پر ایک ادارہ بنا دیا تھا۔ نواز شریف کو 2017ء میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جب پاناما پیپرز میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انہوں نے لاکھوں ڈالر آف شور اکاونٹ میں جمع کرا رکھے ہیں جو شریف خاندان کے دیگر افراد میں ایک معمول کی بات ہے۔ اس خاندان کی سیاسی طاقت کی بنیاد شہری آبادی ہے اور اسے بڑے چھوٹے تاجروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جہاں تک پاکستان میں چند سری حکومت کا تعلق ہے، شریف خاندان اس وقت سب سے محفوظ ہے۔ وہ کاروبار چلانا جانتے ہیں، اس لیے وہ ایک جدید ریاست کا انتظام کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد اسلامی جماعتوں کا بلاک ہے، جس میں سب سے بڑی جماعت جے یو آئی ہے، جس کی قیادت مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔ اسے دو صوبوں میں کچھ حمایت حاصل ہے، اس کی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں 26 نشستیں ہیں۔ متوقع پرہیزگاری کے برعکس جے یو آئی تجارتی مفادات سے کنارا کش نہیں ہے۔ اس نے پی پی پی کی ایک سابقہ حکومت کو اس شرط کے ساتھ پارلیمانی حمایت کی پیشکش کی تھی کہ اس کے لیڈر کو خیبرپختونخوا کی ڈیزل فرنچائز دی جائے۔ تب سے وہ ’مولانا ڈیزل‘ یا صرف ’ڈیزل‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

جب پی ٹی آئی 2018ء میں برسراقتدار آئی تو بھٹو زرادی اور شریفوں نے الزام لگایا کہ فوج کے ذریعے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے، لیکن وہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ انتخابی نتائج کی شفافیت جو بھی رہی ہو بہرحال عمران خان نے ایک موثر عوامی مہم چلائی تھی۔ اس نے ایک نئی شروعات کا وعدہ کیا اور تمام سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا اعتماد حاصل کیا، جو بدعنوان خاندانی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے متبادل کے لیے بے چین ہیں لیکن اپنی انتخابی کامیابی کے لیے عمران خان نے اپنی ٹیم تشکیل دینے کیلئے ان مشیروں اور معاونین کی تلاش کی جو اس موجودہ نظام کے پروردہ اور ہر سیاسی جماعت کا حصہ رہ چکے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کا بنیادی حصہ مقبول رجحان کا ساتھ دینے والوں پر مشتمل تھا، جن میں بہت سے لوگ فوج کے قریب تھے، جو اپنی وفاداریاں اس لمحے تبدیل کر لیتے ہیں جب وہ ہوا میں تبدیلی کی بو محسوس کرتے تھے۔ بہت سے امیدوار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے آئے تھے۔ ان میں سے بیشتر جیت گئے، حالانکہ پی ٹی آئی مجموعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

عمران خان نے اپنی انتخابی جیت کے بعد ملنے والی خیر سگالی کو تیزی سے ضائع کر دیا۔ اقربا پروری، عوامی عدم اطمینان کی ایک بڑی وجہ ہے، جس نے پاکستان کو اپنے آغاز سے ہی نقصان پہنچایا اور پی ٹی آئی نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد لاہور اور کراچی سے روایتی صنعت کاروں (جن میں زیادہ تر ہندو تھے) کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوا جسے ریاست اور غالب سیاسی جماعت مسلم لیگ کی براہ راست مداخلت نے پر کیا۔ اس کے بعد 1960ء کی دہائی کے اوائل کی صنعتی تیزی نے لاہور میں نئے سرمایہ داروں کی ایک کھیپ کو مضبوط کیا جس کے سیاسی طبقے سے قریبی تعلقات تھے (جبکہ باقی صنعت کاروں، خاص طور پر کراچی میں غیر سندھی، پارسیوں اور بوہروں کو بھی مالا مال کیا گیا)۔ آج پاکستان میں حکمرانی میں شامل سرفہرست پانچ خاندانوں میں سے ایک تعمیرات کا بے تاج بادشاہ ہے جو فوجی اور سویلین منصوبوں کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے اشرافیہ سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر ارب پتی بن گیا۔ ملک ریاض اپنے آپ کو ’پاکستان کے معروف رئیل اسٹیٹ ڈویلپر اور مخیر انسان‘ کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ اس کی شائستگی فریب ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں، پولیس اور فوجی افسروں کی مالی مدد اور اقتدار میں رہنے والوں کے لیے گھر بناتا ہے۔ ایک حالیہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہ سونے کے زیورات پر مشتمل ایک بریف کیس ’خاتون اؤل‘ کے ملازم کو دے رہا ہے۔ پولیس نے گھریلو جھگڑے میں اس کے گھر والوں کی مدد کی اور انہیں تفتیش سے بچا لیا (اس قسم کی ملی بھگت کو محسن حامد کے 2014ء میں شائع ناول، ’How to Get Filthy Rich in Rising Asia‘ میں خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے)۔

ملک ریاض پاکستان کی بددیانت سیاست کی مجسم تصویر ہے۔ چاہے کوئی اسے فوجی آمریت یا منظم جمہوریت کا شاخسانہ کہے، ملک ریاض کا رہنما اصول ایک غلیظ اور امیر اشرافیہ کی افزائش ہے۔ ملک میں تعلیم اور صحت کے بہتر نظام کا فقدان ہے۔ شہروں اور دور دراز کے دیہات میں غریبوں کو باقاعدگی سے بے دخل کیا جاتا ہے تاکہ ان کی زمین ہتھیائی جائے اور پھر مہنگے داموں فروخت کی جا سکے۔ خواتین کی حالت بدستور خوفناک ہے اور بہت سے سماجی اشاریوں پر پاکستان بنگلہ دیش سے پیچھے ہے۔ عمران خان نے بدعنوانی کے خاتمے اور ایک مناسب سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے ان بیماریوں کا علاج کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن دوران اقتدار اس نے ایسا کچھ نہ کیا۔

پی ٹی آئی کو اپنے حکومتی صوبے میں بدعنوانی کے بڑے الزامات کا سامنا رہا۔ ایک نئے سماجی متبادل کے حصول کیلئے پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، جس کے بعد بجلی و گیس کے بلوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا، متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہوا جبکہ اشیائے خوردونوش کی بھی قلت پیدا ہوئی۔

یہ سب حکومتی اقدامات کا نتیجہ تھا مگر عمران خان کی اپنی پارٹی کے سرکردہ افراد کو جس چیز نے ناراض کیا وہ پنجاب میں شکست تھی، جہاں ان کی اہلیہ نے وزارت اعلیٰ پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی عثمان بزدار کو سونپنے پر اصرار کیا۔ ایک ایسا شخص جسے اس کا ہمدرد مبصر بھی ایک غیر موثر اور نچلے درجے کا سیاستدان قرار دے گا۔ وزارت اعلیٰ کی اس تقرری نے عمران خان کے حامیوں کو تقسیم کر دیا، فوج کو غصہ دلایا اور وہ اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیلا۔ بھٹو زدرای اور شریفوں نے بزدار پر خاتون اؤل کے لیے مال بنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خاتون اؤل، اس کا سابق شوہر اور بیٹا پنجاب میں ہونے والے تمام ٹھیکوں سے کمیشن وصول کر رہے تھے۔ بزدار نے اپنی حماقت، تکبر اور غنڈہ گردی سے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا، جس سے پی ٹی آئی میں اس کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔ حکمران خاندانوں کی قیادت میں اس مخالفت کا نتیجہ جلد ہی سامنے آ گیا۔

مذکورہ اور دیگر سکینڈلز کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی بنیاد بنانا شروع کر دی۔ افغانستان میں امریکی انخلا اور یوکرین پر روسی حملے نے بھی کردار ادا کیا۔ کابل میں طالبان کی فتح کے بعد عمران خان نے اعلان کیا کہ خطے اور کئی ممالک میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امریکیوں نے ’گڑبڑ‘ کر دی۔ امریکہ نے اس تبصرے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا، جس کی پینٹاگون میں مذاکرات کرنے والے پاکستانی فوجی وفد نے تردید کی۔ وفد نے اپنے امریکی اتحادیوں کو یقین دلایا کہ پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں فوج نے طے کرنی ہیں، وزیراعظم نے نہیں۔ خیر یہ معاملہ تو ٹھنڈا ہوا مگر پھر چند ماہ بعد عمران خان عین اس دن ماسکو پہنچ گئے جب روسی فوج نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روسی حملے کے خلاف اور نیٹو کے زیر اہتمام تحریک کی حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھارت اور چین کے موقف کو اپنایا۔ اس طرح ایک بار پھرامریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اشتعال دلایا گیا، جس نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک پیغام شائع کیا۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کو بے دخل کرنے کی اپوزیشن کی مہم پراسرار طور پر تیز ہوگئی۔ سازش کرنے والے گہری چال چلنے لگے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ برائے ایشیا ڈونلڈ لو نے مبینہ طور پر عمران خان کو متنبہ کیا کہ اگر وہ عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سامراجی سفیروں کے لیے اس طرح کی دھمکیاں غیر معمولی بات نہیں (تاہم سرکش سیاستدانوں کو سبق سکھانے کیلئے عام طور پر فوج کے حوالے کر دیا جاتا ہے) مگر ڈونلڈ لو کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی عدم حمایت نے وائٹ ہاؤس کو سخت پریشان کیا، جسے امریکی بالادستی کے لیے براہ راست چیلنج سمجھا گیا۔ اس کے فوراً بعد بائیڈن انتظامیہ نے احمقانہ انداز میں عوامی سطح پر چین کو دھمکیاں دینا شروع کیں اور بھارتی رہنماؤں کی نجی سطح پر سرزنش کی۔ اس کے باوجود اس نے ملک کی جوہری حیثیت، افغانستان سے قربت اور چین سے قریبی روابط کی بنا پر پاکستان پر خصوصی توجہ دی۔ عمران خان کی نافرمانی کے بعد امریکی بالادستی واضح طور پر اپوزیشن کی پشت پناہی کرنے لگی، اس امید پر کہ وہ اپنے کسی رہنما کو نیا وزیر اعظم بنائے۔

اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے بعد امریکی سفارتی دباؤ کا اثر فوری طور پر نظر آنے لگا۔ جنرل باجوہ نے یوکرین تنازع پر دوبارہ امریکہ کی طرف جھکاؤ ظاہر کرنے کے لیے عوامی بیان دیا۔ موقع پرست سیاستدان عمران خان کے جہاز سے چھلانگیں لگا کر اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کرنے لگے۔ چھوٹی جماعتیں جنہوں نے عمران خان کی حکومت بنانے میں مدد کی تھی، ساتھ چھوڑ گئیں۔ پی ٹی آئی ارکان پارلیمان کو بھی پرکشش پیش کشیں کی گئیں۔ سندھ کے جادوگر زرداری نے جو ہسپتال میں زیر علاج تھے، پارٹی گیمز میں شامل ہونے کے لیے اپنا بستر عارضی طور پر لپیٹ دیا۔ اس طرح کے سیاسی بحرانوں سے نمٹنے کا تجربہ رکھنے پر پوری اپوزیشن نے زردادی پر بھروسہ کیا کہ وہ کمزور تعلق والے پی ٹی آئی ارکان کو خرید لیں، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔

خان نے اپنے ڈگمگانے والے ارکان کو سنگین نتائج سے خبردار کیا، انہیں یاد دلایا کہ ان کے رشتہ داروں کے گھروں پر غنڈوں کو بھیجا جا سکتا ہے، ان کے بچوں کے ساتھ سکول میں غنڈہ گردی کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے انتباہ مشہور فلم دی گاڈ فادر II میں فریڈو کے ہاتھوں دکھائے جانے والے قتل عام کی یاد تازہ کر دی۔ درحقیقت پاکستانی سیاست میں مافیا کا ہاتھ زیادہ ہے۔ چھوٹی جماعتوں میں سے ایک ایم کیو ایم منظم انداز میں مسلح گروہ چلاتی ہے جو بے شرمی سے لوٹ مار اور چوری کرتے ہیں۔ یہ جماعت عمران خان کے اتحاد کا حصہ تھی، اب انہوں نے اسے بھی چھوڑ دیا ہے۔

اگلے عام انتخابات جو اکتوبر 2023ء میں ہونے چاہیے، غریبوں کے لیے کچھ عارضی ریلیف لے کر آئے گا کیوں کہ زیادہ پیسہ تو ووٹوں کی تلاش میں ہی گردش کرتا ہے۔ الیکشن کا وقت وہ ہوتا ہے جب سب سے نچلے طبقے کو آٹا اور چینی خریدنے کے لیے امیروں سے معمولی سبسڈی ملتی ہے، یہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اس صورتحال میں تو انتخابات سالانہ بنیادوں پر ہونے چاہیے۔ اگر عمران خان انتخابی حمایت کھو دیتے ہیں، جیسا کہ بظاہر امکان دکھائی دے رہا ہے، تو کیا ان کا جانشین کوئی بہتر آدمی ہو گا؟ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ دعویداروں میں سے کوئی بھی پاکستان کے انتہائی بدعنوان اسٹیٹس کو کا متبادل پیش نہیں کرتا، جس وجہ سے عمران خان کا خود بھی سیاست سے دور ہونے کا امکان نہیں۔

خان کو یقین ہے کہ انہیں دوسرا موقع ضرور ملے گا، چاہے ان کی اہلیہ کو اپنے سابق شوہر اور بیٹے کے ساتھ جیل میں وقت گزارنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹھیک سوچ رہے ہوں، کیوں کہ وہ متوسط شہری اور محدود بورژوا طبقے میں مقبول ہیں۔ عمران خان کی قسمت کچھ بھی ہو، مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست میں کچھ نہیں بدلے گا۔ اشرافیہ کی شیطانی لالچ اور مستقل بے حسی حلب کے رہنے والے دسویں صدی کے عظیم سیکولر شاعر ابو العلا معری کے ان اشعار کی یاد دلاتی ہے:

جہاں کبھی شہزادہ حکومت کرتا تھا
وہاں ہوائیں سنسنا رہی ہیں
یہاں کبھی وہ شخص رہتا تھا
جسے غریب کی آہ سنائی نہ دیتی تھی

Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔