فاروق طارق
معین قریشی (مرحوم) پہلا فرد تھا جو عبوری دور میں وزیر اعظم بن کر تین ماہ کے لئے جولائی سے اگست 1993ء تک ایک ”ماہرِ معیشت“ کے طور پر پاکستان پر نازل ہوا تھا۔ وہ یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے آیا تھا۔
ورلڈ بینک کے اس سینئر وائس صدر نے تین ماہ میں جو کام کیے اس سے مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا۔ سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا۔ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ اس نے ریاستی سبسڈی کو ختم اور کٹوتیاں کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ 14 وزارتیں ہی ختم کر دیں۔’اصلاحات‘ کے نام پر ردِ اصلاحات کیں۔
بعد میں بے نظیر بھٹو نے 1993ء کے آخر میں اقتدار میں آکر بار بار کہا کہ کلیدی معاشی فیصلے تو معین قریشی کر گیا ہے‘ میں اب کیا کر سکتی ہوں؟
پھر 1996ء میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کی حکومت بھی تین سال نکال گئی اور جنرل مشرف نے اس کا 1999ء میں تختہ دھڑن کر دیا۔
معین قریشی کے بعد دوسرا ماہرِ معیشت جو مشرف آمریت کے دور میں نازل ہوا وہ شوکت عزیز تھا جو فوجی بغاوت کے صرف تین ہفتے بعد 6 نومبر 1999ء کو وزیر خزانہ بن کر آیا۔
شوکت عزیز بدنام زمانہ سٹی بینک کا ایگزیکٹو سینئر وائس صدر تھا جب وہ پاکستان میں آمریت کے خزانے کو سنبھالنے کے لئے نامزد ہوا۔ پھر 2004ء سے 2007ء تک وہ وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس دوران مشرف صدر تھا۔
شوکت عزیز کا دور پاکستان میں نیو لبرل فلسفے پر یقین اور عملدرآمد کرانے والوں کا دور تھا۔ اس دور میں حفیظ شیخ 2003ء سے 2006ء تک وزیر نجکاری تھا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ ایک معروف ’معاشی ہٹ مین‘(معاشی قاتل) تھا (اور ہے)۔ وہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک میں کام کر چکا تھا۔ امریکی شہر بوسٹن جو عالمی طور پر اکنامک ہٹ مین پیدا کرنے میں مشہور ہے، میں حفیظ شیخ نے معاشیات کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔
شوکت عزیز اور حفیظ شیخ کی جوڑی کو مشرف آمریت کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ انہوں نے کھل کر سرکاری اداروں کو بیچا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ جات کی واپسی میں کوئی خلل نہ آنے دیا۔
یہ وہ دور تھا جس میں صرف نجکاری سے تقریباً دس لاکھ محنت کش بے روزگار ہوئے۔ ایک کلوواٹ اضافی بجلی بھی پیدا نہ کی گئی۔ لوڈ شیڈنگ اسی ٹرائیکا کا تحفہ تھا جس نے نہ صرف عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا بلکہ صنعتی ترقی بھی تقریبا رک گئی۔ معاشرے کو پیداواری شعبوں کی بجائے سروسز کی طرف گامزن کیا گیا۔
آمریت کے اس دور میں کھاد کے تمام سرکاری ادارے بیچ دئیے گئے۔ لاہور میں ریلوے گالف کلب اور فلیٹیز ہوٹل کو سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک چھوٹی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی اتصلات کو پاکستان کا ایک دیوہیکل ادارہ پی ٹی سی ایل بیچ دیا گیا۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بیچ دی گئی۔ پورے پیسے آج تیرہ سال بعد بھی نہ ملے۔ حبیب، یونائٹیڈ اور الائیڈ بینک جیسے بڑے فنانشل سرکاری ادارے سرمایہ داروں کو اونے پونے داموں بیچ دئیے گئے۔
یہ دور فوجی کمرشل اداروں کے فروغ کا دور بھی تھا۔ ان کی دولت میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہوا۔
لیکن ان نام نہاد ماہرینِ معیشت کے باوجود معیشت میں ترقی کی بجائے زوال پزیری ہی ہوئی۔ پاکستان اسی دور میں مذہبی جنونیت کا گڑھ بنتا چلا گیا۔
اس دور کے آخر میں ایک اور ماہر معیشت سلمان شاہ بھی حکومت کو مشورے دینے آگیا۔ وہ عبوری دور میں وزیر خزانہ بنا۔ جبکہ شوکت عزیز کا مشیر بھی رہا تھا۔ ایک فوجی جرنیل کا داماد ہونا اس کی سب سے بڑی قابلیت تھی۔ وہ بھی امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھتا پڑھاتا رہا تھا۔
ان چاروں ماہرین معیشت (معین قریشی، شوکت عزیز، حفیظ شیخ اور سلمان شاہ) میں ایک خوبی خاص طور پر مشترک تھی۔ یہ چاروں آمریت یا عبوری ادوار میں تعینات ہوئے۔ حفیظ شیخ پر پیپلز پارٹی نے خاص عنایت کی تھی کہ اپنے دور میں 2010ء میں اسے وزارت خزانہ پر تعینات کر دیا۔ اور پھر جو خزانے کا برا حال ہوا اس کی قیمت پیپلز پارٹی نے 2013ء کے عام انتخابات میں چکائی۔ اس کا ووٹ 36 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد رہ گیا جو آج تک اس کی سب سے بری انتخابی کارکردگی تھی۔
اب ان ’ماہرینِ معیشت‘ میں سے ایک‘ حفیظ شیخ واپس آیا ہے لیکن اپنے ایک اور قریبی ساتھی کے ساتھ۔ اب تو یہ ٹولہ سٹیٹ بینک کو بھی براہ راست کنٹرول کرے گا۔
ان ماہرین کی پالیسیاں محنت کش طبقے کے لئے زہر قاتل ہیں۔ یہ وفاقی سطح پر خزانے کو کنٹرول کر کے صوبوں کا حصہ کاٹیں گے۔ یہ ماہر ہیں تو سرکاری ادارے بیچنے کے۔ ان کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ اس کا عوام پر کیا اثر پڑے گا۔ کتنی مہنگائی اور بیروزگاری ہو گی۔ یہ دیکھتے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کو کیا فائدہ پہنچانا ہے۔
ان ماہرین کی موجودگی پاکستان میں وہ لنکا ڈھائے گی جو انہی جیسے ماہرین کی ہدایات پہ لاطینی امریکا میں 1980ء کی دہائی میں ڈھائی گئی تھی۔ وہاں ہول سیل نجکاری کی گئی تھی۔ قرضے آسمانوں کو پہنچ گئے تھے اور معیشتیں بیٹھ گئی تھیں۔ غربت اور امارت کی تفریق چند سالوں میں انتہاؤں کو پہنچ گئی تھی۔
یہ لوگ پاکستان کی مرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشت کی سرجری کرنے آرہے ہیں۔ جو کچھ بچا ہے وہ لوٹنے آرہے ہیں۔بلکہ لائے جا رہے ہیں۔
یہاں کچھ ایسا ہونے والا ہے: آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستان نے اگلے دو سال میں 25 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ یہ دو ایجنٹ اب یہ 25 ارب ڈالر واپس لینے آئے ہیں۔ اس کے لئے وہ ادارے بیچیں گے۔ جو قرضے ملیں گے وہ بھی سابق قرضہ جات کی واپسی پر صرف ہوں گے۔ یعنی جو بھی کمائی اِدھر اُدھر ہاتھ مار کے کریں گے وہ پاکستان کے لئے نہیں عالمی مالیاتی فنڈ کے لئے ہو گی۔ جب یہ آئے تو آئی ایم ایف کے لئے ملازمت کرتے تھے۔ جب واپس جائیں گے تو یہی استحصالی ادارہ انہیں بخوشی ترقیاں دے کر ملازمت پر واپس لے گا۔
نئی مشیر اطلاعات کہتی ہے کہ نیا گورنر سٹیٹ بینک قمر رضا پاکستان کا سپوت ہے اور ملک کی خدمت کرنے آیا ہے۔کیسا جھوٹ ہے! وہ پاکستان کا نہیں اس آئی ایم ایف کا سپوت ہے جس نے اسے بھیجا ہے۔