دنیا

سامراجی گدھوں کے جال میں ’الجھا‘ باغی

حارث قدیر

اس کرۂ ارض پر جنم لینے والے ہر بچے کی طرح وہ بھی اپنی مرضی کے خلاف مگر ایسی جگہ پیدا ہوا، جہاں ایک طاقتور اور جابر ریاست کا نہ صرف قبضہ تھا بلکہ قابض ریاست کی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جبر و وحشت کی اذیتیں انسانی روحوں تک کو گھائل کر رہی تھیں۔

جب کھیلنے کودنے اور زندگی کے رنگوں میں رنگ جانے کی کچی عمر تھی، تب اسے کھیل کود اور دنیا کے رنگوں میں الجھنے کی بجائے سڑکوں پر تضحیک و تذلیل کا نشانہ بننے والے بے قصور انسانوں کی بے بسی نے ایسا الجھا دیا کہ وہ بے سمت الجھتا ہی چلا گیا۔

یہ کہانی 3 اپریل 1966ء کو مائسمہ سرینگر میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان کی ہے، جو آج 54 سال کی عمر میں ایک قابض ریاست کی عدالت سے عمر قید و جرمانے کی سزا پانے کے بعد دنیا بھر کے میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس کے جذبات، رد عمل کی خوفناک صلاحیتوں، کرشماتی شخصیت اور کچھ کر گزرنے کی عمر کو اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے والی قابض ریاستوں کے کھلاڑیوں سمیت سیاسی و سماجی کردار آج بھی اس پر سیاست کر رہے ہیں۔

یوں کہیے تو سامراجی و سیاسی گدھوں کے جال میں ’الجھا‘ ہوا ایک باغی ہے، جس کی اپنی شخصیت و کردار کو سمجھنے میں دشواری اس لئے ہوتی ہے کہ زندگی کا ہر پہلو اور ساعت دوسری سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد نظر آتی ہے۔ تاہم کسی بھی ٹاسک کو پورا کرنے کیلئے کسی حد تک جانے کیلئے ہمہ وقت تیار اس الجھی شخصیت کے متضاد کردار و حمایتوں کو سمجھنے کیلئے تاریخی واقعات کو تسلسل میں سمجھنا ضروری ہے۔

عدالتی سزا اور رد عمل

یاسین ملک کا نام منقسم جموں کشمیر کے تمام حصوں سمیت برصغیر پاک و ہند بھر میں گزشتہ ایک ماہ سے بہت مقبول ہے۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی عدالت نے 19 مئی 2022ء میں یاسین ملک کو دہشت گردی کیلئے چندہ جمع کرنے اور کشمیر میں بھارت مخالف مہم اور افراتفری پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے قانون یو اے پی اے اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات ’120B‘ اور ’124A‘ کے تحت دو مرتبہ عمر قید اور 10 سال کی سزا سنائی ہے۔

یاسین ملک کو دی جانیو الی اس سزا کو بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی بھارت نواز جماعتوں کے اتحاد کے علاوہ علیحدگی پسند سمجھی جانے والی جماعتوں نے بھی مسترد کرتے ہوئے امن کی کوششوں کیلئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ سرینگر کے میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کے علاوہ سخت پابندیوں کے باوجود کچھ مقامات پر نوجوانوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے گرفتاریوں اور تشدد کا نیا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔

دوسری طرف پاکستانی حکومت اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی یاسین ملک کو دی گئی سزا کے خلاف سرکاری سطح پر احتجاج کیا گیا ہے۔ بیرون ملک بھی حکومت پاکستان کی معاونت سے احتجاج منعقد کروانے کے سلسلے کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے یاسین ملک کو سنائی گئی سزا کے خلاف قانونی آواز اٹھانے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

سیاسی اور عسکری زندگی

یاسین ملک کی سیاسی اور عسکری زندگی کو سمجھنا جموں کشمیر جیسے متنازعہ خطوں کے نوجوانوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ انتہاؤں کو چھوتا ریاستی جبر نوجوانوں میں انتقام اور رد عمل کو جنم دیتا ہے، جس کی کوئی بھی سمت اور کوئی بھی انتہا ہو سکتی ہے۔ سیاسی قیادتوں کے اقتدار کی ہوس میں مصالحانہ کردار اور مزاحمتی قوتوں کے نظریات کی بجائے فرقہ وارانہ اور پراکسی کردار نوجوانوں کو اس انتقام اور رد عمل کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی حالات نے آزادی کے جذبے سے سرشار ہزاروں نوجوانوں کے خون سے جموں کشمیر پر قابض ریاستوں کی دیوہیکل افواج کی بڑھتی جسامت کو جواز بخشے جانے کے ساتھ ساتھ مصنوعی دشمنی و دوستی کے ناٹک میں سرمایہ دارانہ جبر اور قبضے کو دوام بخشا ہے۔

5 اگست 2019ء کے بعد انتہاؤں کو چھوتے ریاستی جبر کے خلاف نوجوانوں کے رد عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بھارتی خفیہ ادارے کے سابق چیف اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ ’کشمیری نوجوانوں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی جان سستے میں نہیں دینگے۔‘ 1990ء کی عسکری بغاوت کے حالات میں بھارتی خفیہ ادارے کی سربراہی کرنے والے افسر کی یہ وضاحت کشمیری نوجوانوں کے اندر پنپنے والی انتقام کی آگ اور ان کے جذبات کی سچائی کی عکاس ہے۔ تاہم ان جذبات اور انتقام کی آگ کو جس طرح پراکسی مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، اس کی جیتی جاگتی مثال یاسین ملک کی سیاسی اور عسکری زندگی ہے۔

یاسین ملک نے 1980ء میں محض 14 سال کی عمر میں ’تالہ پارٹی‘ کے نام سے بھارتی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔ چند نوجوانوں کے ہمراہ انہوں نے جموں کشمیر کی آزادی اور حق خود ارادیت کی مانگ کو لیکر لٹریچر چھپوانے اور تقسیم کرنے کے علاوہ احتجاج منظم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ جلد ہی سرینگر کے گردونواح میں مقبولیت حاصل کرنا شروع ہو گئے۔ تاہم انہیں اصل مقبولیت 13 اکتوبر 1983ء کو سرینگر کے شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارت ویسٹ انڈیز میچ میں کھانے کے وقفے کے دوران پچ کھودنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے 12 افراد کے بعد ہوئی۔ شوکت بخشی، شبیر شاہ، یاسین ملک سمیت 12 نامزد اور 9 نامعلوم نوجوانوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا۔ ایک سال تک گرفتار رہنے کے بعد یاسین ملک اور ان کے ساتھیوں کو 1984ء میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔ مقبول بٹ شہید کو پھانسی دیئے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں بھی 4 ماہ تک جیل میں رہے۔ بعد ازاں یاسین ملک اور ساتھیوں نے اپنی تنظیم کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ (آئی ایس ایل) رکھ لیا۔

آئی ایس ایل وادی کشمیر میں نوجوانوں کی ایک مقبول تحریک کا درجہ اختیار کر گئی تھی۔ اسی اثنا میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اور علیحدگی پسند یا حق خود ارادیت کی حمایتی سمجھی جانے والی اسلامی تنظیموں نے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (ایم یو ایف) کے نام سے اتحاد قائم کر کے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ آئی ایس ایل نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی بجائے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا اور یہیں یاسین ملک اور ساتھیوں کی زندگی میں ایک اور بڑی تبدیلی بھی منتظر تھی۔

1987ء میں منعقد ہونے والے ان انتخابات کو بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ یاسین ملک موجودہ عسکری تنظیموں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ کے سربراہ سید یوسف شاہ عرف صلاح الدین کے چیف پولنگ ایجنٹ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر دیا گیا۔

عسکری تحریک یا پراکسی وار

آزادی کی تحریکوں میں سامراجی مداخلت اور پراکسی کردار تراشنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ جن خطوں میں قطع اراضی کی دعویدار دو متحارب ریاستیں ہوں تو وہ ہمیشہ ایک یا دوسرے کے قبضے میں موجود حصہ میں سیاسی و سماجی عدم استحکام پیدا کرنے یا ریاستی جبر کیخلاف رد عمل کو اپنے پراکسی مفادات و مقاصد کیلئے استعمال پر ہمہ وقت تیار و کوشاں رہتی ہیں۔ جموں کشمیر کا قضیہ بھی اسی نوع کا ہے۔ برصغیر کے سامراجی مقاصد کیلئے ہونے والے بٹوارے کیلئے جن مذہبی منافرتوں کی بنیاد ڈالی گئی تھی، اس منافرت کی آگ کو تازہ دم رکھنے کیلئے جموں کشمیر کے باسیوں کے خون کو تیل کے چھڑکاؤ کی مانند ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس پراکسی کھیل کا سب بڑا شکار بھارتی زیرانتظام جموں کشمیر کا مسلم اکثریتی حصہ رہا ہے۔ جہاں بھارتی ریاست کی ہندو توا کی پالیسیوں کی بنیاد پر مسلم اکثریتی علاقوں میں جبر و بربریت کی انتہاؤں، ہندو اکثریتی علاقوں میں مہاراجہ حکومت کے ساتھ ملکر مسلم نسل کشی کی کوششوں کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جاتی رہی، وہیں پاکستانی ریاست کی جانب سے ہر سیاسی و سماجی انتشار اور عدم استحکام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے، عسکری رنگ دینے اور بغاوت و انتشار کو اکسانے کی کوششیں 50ء کی دہائی سے ہی کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ مورخین مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کی انتخابی مہم کو استوار کرنے میں پاکستانی خفیہ اداروں کی بھرپورمعاونت کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ ان دعوؤں کوسید صلاح الدین کے کنٹرول لائن عبور کر کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر جانے اور جماعت اسلامی کے زیر سایہ بننے والی پروپاکستان مسلح تنظیم ’حزب المجاہدین‘ کی سربراہی اور بعد ازاں جموں کشمیر میں کام کرے والی تمام عسکری تنظیموں کی سربراہی کرنے سے تقویت ملتی ہے۔

تاہم 1986ء میں ہی جموں کشمیر کی آزادی و خود مختاری کی دعویدار تنظیم ’جموں کشمیر لبریشن فرنٹ‘ (جے کے ایل ایف) کے ساتھ وادی کشمیر میں مسلح بغاوت کے آغاز کیلئے پاکستانی خفیہ اداروں کا معاہدہ طے پا چکا تھا۔ تربیتی کیمپوں کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ یاسین ملک اور دیگر ساتھی بھی 1987ء کے اواخر میں بھارتی جیلوں سے رہائی پانے کے بعد کنٹرول لائن عبور کر کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پہنچ گئے۔ لبریشن فرنٹ کے تربیتی مراکز سے عسکری تربیت حاصل کی اور بڑے پیمانے پر ’خودمختار کشمیر‘ کیلئے حمایت حاصل کرنے والا لٹریچر لے کر واپس وادی کشمیر کا رخ کیا۔

حمید شیخ، اشفاق مجید وانی، جاوید احمد میراور یاسین ملک کے ناموں کے ابتدائی حروف کو استعمال کر کے ابتدائی عسکری گروپ کا نام ’حاجی گروپ‘ (HAJY) رکھاگیااور عسکری سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا۔ بھارتی وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کے اغوا، بھارتی ایئر فورس کے 4 جوانوں کے قتل سمیت دیگر سرگرمیوں نے حاجی گروپ کو مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ آزادی کا نعرہ وادی میں مقبولیت اختیار کرتا گیا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد عسکری بغاوت کا حصہ بنتی گئی۔

تاہم جموں کشمیر کی مکمل آزادی کے نعرے کو پاکستانی ریاست کی طرح سے استعمال کرتے ہوئے جس عسکری چنگاری کو بڑھکتی آگ میں تبدیل کیا تھا، اسے جلد ہی ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 1990ء میں ہی لبریشن فرنٹ کے مقابلے میں حزب المجاہدین کو لانچ کر دیا گیا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ لبریشن فرنٹ پاکستانی ریاست کی پہلی چوائس نہ تھی، جماعت اسلامی کے ساتھ مسلسل عسکری تحریک کے آغاز کی کوششوں میں ناکامی کی صورت لبریشن فرنٹ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ لبریشن فرنٹ کی عسکری تحریک کے آغاز سے پہلے بھی کچھ اسلامی عسکری تنظیمیں مسلح سرگرمیاں کر رہی تھیں، جن میں ضیا ٹائیگرز، الحمزہ، حزب الانصار، اللہ ٹائیگرز، انصار الاسلام (جو بعد ازاں البدر مجاہدین کے نام سے مشہور ہوئی) شامل تھیں، تاہم انہیں وہاں مقبولیت حاصل نہ تھی۔

یاسین ملک اور ان کے 1 ہزار سے زائد ساتھیوں کو لانچ کرنے کے بعد جب عسکریت کو مقبولیت حاصل ہوئی تو اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کیلئے لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں سے نہ صرف سرپرستی کا ہاتھ ہٹایا گیا بلکہ ان کے قتل عام کی راہ بھی ہموار کی گئی۔ اسلامی عسکری تنظیموں اور لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں کے درمیان متعدد جھڑپوں اور خونریز لڑائیوں کی اطلاعات بھی تواتر کے ساتھ سامنے آتی رہیں۔ دو سال کے اندر 1992ء تک لبریشن کے تقریباً تمام عسکریت پسند یا تو گرفتار ہو چکے تھے، یا مارے جا چکے تھے۔ یاسین ملک کو بھی زخمی حالت میں اگست 1990ء میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پرامن سیاست کا پرچارک

آزادی کی جدوجہد صرف جذبات کی بنیاد پر لڑی اور جیتی نہیں جا سکتی، جب تک انقلابی نظریہ کا مضبوط ہتھیار اور مستقبل کا سائنسی لائحہ عمل نہ ہو تو محض جذبات کی سچائی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں آزادی اور نجات کیلئے کٹ مرنے کے جذبات سے سرشار سیاسی کارکنوں کا ہر پہلو، ہر سرگرمی اور ہر اقدام کسی نہ کسی سامراجی پراکسی ضرورت کی تکمیل کاآسان وسیلہ بن جایا کرتا ہے۔ انسان ایک انتہا سے مایوسی کے بعد دوسری انتہا اور پھر تیسری انتہا کی جانب چل دوڑتا ہے۔ آخری تجزیہ میں ایک ایسے گرداب میں پھنس جاتا ہے کہ نہ صرف اس کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے، بلکہ اس کے کردار پر ہر اور مشکوک نگاہوں کی تاک رہتی ہے۔

1994ء میں یاسین ملک نے عسکریت پسندی کو ترک کرتے ہوئے پر امن سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا اور گاندھی ازم کے پرچارک کے طور پر حق خود ارادیت کی تحریک چلانے کے عہد پر انہیں بھارتی قید سے رہائی نصیب ہوئی۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان نے انہیں پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم پاکستانی ریاست نے انہیں پرامن جدوجہد کے اعلان کے باوجود اپنانے کا فیصلہ کر کے امان اللہ خان کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے نام سے کام کرنے والے اتحاد کے دو دھڑوں میں شامل 39 تنظیموں کے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود نمائندوں میں یاسین ملک کی تنظیم کا ایک نمائندہ بھی مقرر رہا۔ ان تنظیموں کے دفاترچلانے کیلئے پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے فنڈز فراہم کئے جانے کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔

اس عرصہ میں بھارتی و پاکستانی وزرا اعظم سے ملاقاتوں کے علاوہ بھارت و پاکستان کی قیادتوں سے یاسین ملک کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ پاکستانی آرٹسٹ مشعال ملک سے ان کی شادی بھی ہوئی۔ بھارتی سفری دستاویزات پر انہیں اندرون و بیرون ملک سفری سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔ انہوں نے ایک دستخطی مہم کا آغاز کرتے ہوئے پورے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے 3500 دیہاتوں سے 15 لاکھ سے زائد دستخطوں پر مبنی ’سفر آزادی‘ کے نام سے منسوب دستاویزات دنیا بھر کی قیادتوں کو ارسال کیں۔

تاہم 2013ء میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے یاسین ملک سے دیگر سیاسی قائدین کے علاوہ جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ اور عالمی دہشت گرد قرار دیئے گئے حافظ سعید نے بھی اظہار یکجہتی اور ملاقات کی۔ اس کے بعد بھارتی ریاست نے یاسین ملک سے ایک بار پھر منہ موڑ لیا۔ 2017ء میں دیگر چند علیحدگی پسند سمجھے جانے والے رہنماؤں کے ہمراہ یاسین ملک کے خلاف بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دہشت گردی کیلئے چندہ جمع کرنے کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا۔ 2019ء میں چارج شیٹ فائل کی گئی اور 19 مئی 2022ء کو یاسین ملک کو سزا سنا دی گئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یاسین ملک نے این آئی عدالت میں اپنا موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ”میں آپ سے رعایت کی بھیک نہیں مانگوں گا، اگر آزادی اور انصاف کی جدوجہد جرم ہے تو میں مجرم ہوں۔ آپ جو فیصلہ دیں مجھے منظور ہے۔“

یاسین ملک کا عدالتی بیان جہاں ان کے جرأت مندانہ کردار کو واضح کر رہا ہے، وہیں کچھ ناقدین ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بیان اور سزا کو ہی بھارتی ریاست کے ساتھ ایک نئی ساز باز سے تعبیر کر رہے ہیں۔

غداری یا بغاوت پر سزائیں

متنازعہ ریاست جموں کشمیرمیں بھارتی یا پاکستانی ریاستوں کے خلاف بغاوت کرنے، مہم چلانے یا کسی بھی نوع کی سیاسی افراتفری پھیلانے کے الزامات میں سزائیں کسی طور پر جسٹیفائی نہیں کی جا سکتیں۔ جس خطے کے باسیوں کا حق آزادی بزور طاقت چھینا گیا ہو، انہیں مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار حاصل نہ ہو، وہاں پھر مصنوعی سامراجی طرز کی حب الوطنی کو پروان چڑھانے کیلئے کیا جانے والا ہر اقدام نوآبادیاتی جبراور بربریت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں یاسین ملک سمیت ہر سیاسی قیدی کو دی جانے والی سزائیں غیر قانونی، غیر آئینی اور جابرانہ ہیں۔

دوسری طرفہ ہمیں ہر دو ممالک کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کے اقدامات پر احتجاج اور واویلا بھی نظر آتا ہے۔ جس طرح پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان میں گرفتار ہونے والے تنویر احمد، بابا جان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کو دی جانے والی سزاؤں پر بھارتی ریاست اور میڈیا کی جانب سے احتجاج اور عالمی واویلا نظر آتا ہے۔ اسی طرح بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں سیاسی قیدیوں کو دی گئی سزاؤ ں اور ریاستی جبر کے خلاف پاکستانی ریاست کی جانب سے اسی نوع کا عالمگیر احتجاج نظر آتا ہے البتہ اپنے اپنے زیر انتظام حصوں میں کالے قوانین کے نفاذ اور لاقانونیت کو جائز تسلیم کیا جاتا ہے۔

جبر کیخلاف مزاحمت اور مستقبل کی راہ

منقسم جموں کشمیر کے چاروں حصوں میں جبر کی نوعیت ضرور الگ ہو سکتے ہیں، لیکن اس جبر کا کردار مشترک ہے۔ 74 سال سے پونے دو کروڑ انسان اس جبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور سامراجی طرز کے مفادات کا ایندھن بنائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ہر ایک طرف جبر کے خلاف مزاحمت پر تیار نوجوانوں کے پاس مستقبل کا واضح لائحہ عمل اور انقلابی نظریات کا فقدان انہیں سامراجی پراکسی قیادتوں اور ریاستوں کی بھینٹ چڑھانے کا موجب بنتا رہا ہے۔ ہر عہد میں نوجوانوں اور انقلابیوں نے جبر کی ہر شکل کو بہادری سے للکارا ہے، اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ تاہم آج تک آزادی اور انقلاب کا یہ خواب ادھورا ہے۔

تاریخ کے تلخ تجربات ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کی درسگاہ ہوتے ہیں۔ بار بار گھاؤ کھانے اور سامراجی مقاصد کی بھینٹ چڑھنے والے یہ جموں کشمیر کے نوجوان اور محنت کش اپنے تجربات اور سامراجی دھوکوں سے سیکھ بھی رہے ہیں اور نتائج بھی اخذ کر رہے ہیں۔ وہ وقت بھی آئے گا جب اس ہمالیائی خطے سے ابھرنے والے بغاوت کے طوفان غلامی اور جبر کی ہر شکل کو بہا لے جائیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔