پاکستان

جموں کشمیر: ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں فوج کے نمائندے بھی رکن ہونگے، بل ارسال

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ’ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے قیام کیلئے مجوزہ بل اسمبلی سیکرٹریٹ کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ مجوزہ بل کو تیاری کے مراحل سے لیکر اسمبلی سیکرٹریٹ کو ارسال کئے جانے تک خفیہ رکھا گیا اور ابھی بھی میڈیا سے شیئر کرنے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔

مقامی صحافی سید اشفاق شاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مجوزہ بل میں ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اراکین میں پاک فوج کے دو نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بل کی اسمبلی سے منظوری کے بعد نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومت اور ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی سیاحتی علاقوں کو سیاحتی زون قرار دے سکے گی۔ اتھارٹی کے مرکزی دفتر دارالحکومت مظفر آباد میں ہو گا، جبکہ پراجیکٹ ایریا میں حکومتی منظوری کے بعد دفاتر قائم کئے جا سکتے ہیں۔ سیاحتی علاقوں کو سیاحتی زون قرار دیئے جانے کے بعدان علاقوں کی منصوبہ بندی اور قبضہ اتھارٹی کے پاس ہو گا۔ سیاحتی زون میں جموں کشمیر فارسٹ قوانین 1930ء کا اطلاق نہیں ہو گا، وائلڈ لائف ایکٹ 2014ء کا اطلاق بھی نہیں ہو گا، ماحولیات ایکٹ کا اطلاق بھی ان علاقوں پر نہیں ہو گا۔

دوسرے لفظوں میں اتھارٹی سیاحتی علاقوں کی مختار کل ہی نہیں ہو گی بلکہ ہر طرح کے ریاستی اور بین الاقوامی قوانین سے بھی بالا رہ کر کسی بھی طرح کی ڈویلپمنٹ اور اراضی، جنگلات، جنگلی حیات اور ماحول میں تبدیلی کرنے کی مجاز ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق اتھارٹی کے اراکین میں پاک فوج کے دو نمائندے، محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل، ڈویژنل کمشنر، چیف کنزرویٹر جنگلات، چیف انجینئر سی اینڈ ڈبلیو، ڈائریکٹر جنرل ماحولیات، ڈائریکٹر جنرل منرلز، ایڈیشنل سیکرٹری قانون، ڈپٹی سیکرٹری سیاحت سمیت دیگر نمائندے شامل ہونگے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں اراضی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منتقل کئے جانے سمیت دیگر مختلف نوع کی پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحتی مقامات کی اراضی دیہہ شاملات، خالصہ سرکار، بند جنگل سمیت دیگراقسام میں تقسیم شدہ ہے۔ دیہاتوں کے لوگ گرمیوں میں ان پہاڑی علاقوں میں عارضی بسیرا کرنے کے علاوہ مال مویشی چرانے کیلئے بہکوں کے طور پر اس اراضی کو استعمال کرتے ہیں۔

یوں سیاحتی مقامات کی اراضی کو کسی خاص مقصد کیلئے حاصل کرنے یا لیزپر کسی سرمایہ کار کو دینے کیلئے محکمہ مال، محکمہ جنگلات سے این او سی حاصل کرنے کے علاوہ دیہات کے باسیوں کو بھی مطمئن کیا جانا ضروری تھا۔ اس طرح طویل مراحل سے گزرنے کے باوجود مقامی آبادیاں بیرونی سرمایہ کاروں کو اراضی دینے کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی تھیں۔

ان تمام مراحل سے گزر کر بھی اگر اراضی کو لیز کیلئے حاصل کر لیا جائے تو پھر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کیلئے فارسٹ قوانین 1930ء رکاوٹ بن جاتے تھے، جنگلی حیات کو متاثر کرنے، ان کے راستے روکنے اور ان کے بسیروں کو ختم کرنے جیسے اقدامات کے راستے میں وائلٹ لائف ایکٹ رکاوٹ بن جاتا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر سیاحتی مقامات، جو عموماً بلند و بالا پہاڑی علاقے ہی ہوتے ہیں، پر جنگلات کی کٹائی، اراضی کی ہیت تبدیل کرنے اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے سے ایکو سسٹم اور ماحول میں بگاڑ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے اقدامات کے راستے میں ماحولیات ایکٹ کی رو سے بنے قوانین رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

اس صورتحال پر یک جنبش قلم قابو پانے کیلئے ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیلئے اراضی کے حصول، اسے لیز پر بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے اور اتھارٹی کے نوٹیفائیڈ علاقوں کو ان تمام قوانین کے اطلاق سے ماورا قرار دیئے جانے کی تجویز بل میں پیش کی گئی ہے۔

مجوزہ بل کے اسمبلی سیکرٹریٹ کو ارسال کئے جانے کی خبر سامنے آنے کے بعد صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس عمل کے خلاف شدید مزاحمت کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں۔

مظفر آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد عارف عرفی نے ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد اپنے فیس بک اکاؤٹ پر لکھا کہ ”ریاست جموں کشمیر کی آزاد حکومت لا محدود طاقت اور اختیارات کی حامل ٹور ازم ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے جا رہی ہے۔ اس اتھارٹی میں علاقے میں تعینات دوا علی فوجی کمانڈرزکی سر براہی میں درجن بھرسول افسر کام کریں گے۔ تمام انوائرمنٹل قوانین اور فارسٹ پروٹیکشن ایکٹ 1930ء سمیت جنگلات وائلڈ لائف پروٹیکٹڈ ایریاز سمیت وائلڈ لائف پارکس وغیرہ کے بین الاقوامی تسلیم شدہ قوانین وغیرہ بھی اس اتھارٹی کی سرگرمیوں میں حائل نہیں ہو سکیں گے۔

یہ بظاہر خوشامد اور مالی منفعت پہنچانے کی بھونڈی کوشش نظر آرہی ہے، لیکن پس پردہ اس سے علاقے میں تعینات پاکستانی افواج کو دیئے گئے کردار سے متجاوز ذمہ داری سونپنا بین الاقومی سطح پر منفی تاثر پیدا کرنے کی دانستہ سازش لگتی ہے۔“

سینئر صحافی عبدالحکیم کشمیری، جو اس مجوزہ بل کے حصول کیلئے گزشتہ دو تین ماہ سے تگ و دو کر رہے تھے، نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس بابت تحریر کیا کہ ”پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مجوزہ سٹرکچر ناقابل قبول ہے، جنگلات کے تحفظ کے لیے 1930ء کا قانون ختم کرنے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں دو عسکری نمائندوں کی شمولیت پاکستانی فوج کا اقوام متحدہ کی طرف سے دیئے گے مینڈیٹ سے تجاوز ہے۔ تنویر الیاس ہوش کے ناخن لیے۔ سیاحتی مقامات پر قبضے کی کوشش ناکام بنانے کے لیے عوام باہر نکلیں۔“

ضلع پونچھ کے سیاحتی مقام تولی پیر کے نزدیک رہائش پذیر عوامی رہنما تنویر انور کا کہنا ہے کہ ”دور دراز پہاڑوں کے نزدیک رہنے والی آبادیوں کا اپنی خوراک اور جانوروں کی خوراک کے علاوہ سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد سے ہونے والی آمدن کیلئے ان خوبصورت پہاڑوں پر انحصار ہے۔ اس کے علاوہ مقامی آبادیوں نے صدیوں سے ان پہاڑیوں کے قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنے کے علاوہ جنگلی حیات اورجنگلات کا تحفظ کیا ہے۔“

انکا کہنا تھا کہ ”جنگلات کی خشک لکڑیاں اور گھاس ان آبادیوں کیلئے سردیوں میں گرمائش حاصل کرنے اور جانوروں کی خوراک کا وسیلہ بنتی ہے۔ گرمیوں میں تمام پہاڑو ں پر بسنے والی آبادیاں اونچی چوٹیوں پر چلی جاتی ہیں، اور سردیوں میں اپنے آبائی علاقوں میں آجاتی ہیں۔ حکومتوں نے ان دور دراز پہاڑوں پر بسنے والی آبادیوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کی ہیں۔ اب ان پہاڑوں پر قبضہ کرتے ہوئے ان کے قدرتی ماحول، جنگلی حیات، جنگلات اور گھاس پر بھی قبضہ کرکے سرمایہ داروں کو لوٹ مار کرنے کیلئے دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہم اس عمل پر بھرپور مزاحمت کرینگے۔“

ذرائع کے مطابق اہم ترین سیاحتی مقام نیلم کی بلند و بالا پہاڑوں پر واقع دنیا کی خوبصورت ترین وادی ’بابون ویلی‘ کو بھی اس ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت ہتھیاتے کر عسکری اداروں کے حوالے کئے جانے اور اسے جدید سیاحتی مرکز کے طور پر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس مقصد کیلئے اس ویلی میں عام سیاحوں کاداخلہ مکمل بند کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ تاہم کسی حکومتی ذریعے نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

تاہم حکومتی ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے کہ ضلع باغ میں موجود سیاحتی مقام ’گنگا چوٹی‘ کو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے گنگا چوٹی کے کئی کلومیٹر کے علاقہ کو ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر نوٹیفائی کیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر سیاحتی مقامات پر بھی کئی کئی کلومیٹر علاقوں کو ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر نوٹیفائی کرنے کے بعد انہیں ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینے کے علاوہ عسکری اداروں کو سیاحتی مقاصد کیلئے اراضی لیز پر دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

سیاسی و سماجی رہنما و سابق صدر این ایس ایف ابرار لطیف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ”اس حکومتی منصوبے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس علاقے کے ماحول کو برباد کرنے اور جنگلی حیات اور جنگلات کو برباد کو کے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے کے اس منصوبے کے خلاف شہریوں کو بھرپور آواز بلند کرنا ہوگی۔“

انکا کہنا تھا کہ ”بیرونی سرمایہ کاری یا ملکی نجی سرمایہ کاری اپنے منافعوں کے حصول کیلئے اس خطے کے وسائل کو برباد کرے گی۔ اس خطے کے لوگوں کو اس سے کسی بھی نوع کا فائدہ ملنے کی بجائے ماحولیاتی تبدیلیاں کے نقصانات کاشکار ہونا پڑے گا اور اپنے ہی علاقوں میں وہ بے یار و مدد گار ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کو اگر سیاحت کیلئے کچھ اقدامات کرنے ہیں تو وہ سرکاری سرمایہ کاری کے ذریعے سے سیاحتی مقامات کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے ان سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی رسائی کو آسان بنائیں۔ غیر ملکی سیاحوں کو اجازت دینے کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش سمیت دیگر ضروریات کو پورا کریں تاکہ یہاں غیر ملکی سیاح آسکیں اور مقامی آبادیوں کو اس سے کچھ فائدہ حاصل ہو سکے۔“

انکا کہنا تھا کہ ”حکمران اشرافیہ کا مقصد سیاحت کے نام پر اپنی لوٹ مار کو بڑھانا، قیمتی اراضی پر قبضہ کرنا اور اس خطے کے وسائل لوٹنا ہے، سیاحت کے فروخت سے مقامی آبادیوں کی معیشت کو بہتر کرنے کے مقاصد کیلئے اس طرح کے خفیہ ہتھکنڈے نہیں کئے جاتے، بلکہ مقامی آبادیوں کی مشاورت اور ہم آہنگی سے منصوبہ جات کو ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو خفیہ رکھا جانا ہی اس میں حکمرانوں کے عزائم کو ظاہر کر رہا ہے۔“

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔