لال خان
ویسے تو جب سے اس ملک کا جنم ہوا ہے یہاں کی اقتصادیات سامراجی مالیاتی اداروں کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکی۔ آخری تجزیے میں کسی بھی معاشرے اور ریاست کے حالات اور کردار کا دارومدار اس کے معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحت روزِ اول سے اس ملک پر سامراجی اداروں کا غلبہ ناگزیر تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے تمام حدیں ہی پار کر دی ہیں۔ جس ڈ ھٹائی سے آئی ایم ایف (اور دوسرے سامراجی اداروں) کے ملازمین کو وزارت خزانہ کے بعد سٹیٹ بینک اور ایف بی آر بھی سونپ دیا گیا ہے اس کی مثال ملک کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن اس سے ’قومی غیر ت‘ اور ’سا لمیت‘ کی نعرے بازی بھی بری طرح بے نقاب ہوئی ہے۔
دولت اور طاقت کے حصول کے لئے ان حکمرانوں کی پستی اور گراوٹ نوشتہ دیوار ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اگر آزاد نہ ہو تو پھر اس کی قومی اور سیاسی و سفارتی آزادی بھی بڑی حد تک بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس محکومی کے مضمرات ہمیں فلسطین سے لے کر وینزویلا تک سامراجی جارحیتوں پر پی ٹی آئی حکومت کی مکمل خاموشی کی صورت میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ لیکن موجودہ اپوزیشن کا یہ احتجاج کہ پاکستان کو ”دوبارہ“ ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلام بنا دیا گیا ہے‘ اندر سے کھوکھلا‘ بلکہ مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے۔
سرکاری طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کو برصغیر جنوب ایشیا میں ”کاروبار“ کا لائسنس برطانیہ کی ملکہ کے دربار سے 31 دسمبر 1600 ء کو ملا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں سے کبھی گئی ہی نہیں۔ صرف نام، شکلیں اور طریقہ واردات ہی بدلے ہیں۔ اور جو کبھی گیا ہی نہیں وہ ”دوبارہ“ بھلا کیسے آ سکتا ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد یہاں لوٹ مار کی انتہا کی گئی ہے۔ ایک وقت میں کمپنی کی اپنی فوج برطانیہ کی سرکاری فوج سے دوگنا تھی۔ جان ایف رچرڈز جیسے برطانوی مورخین نے ہندوستان سے کمپنی کی ’آمدن‘ کے دِل دہلا دینے والت اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
1858ء میں برطانوی حکومت نے کمپنی کو قومی تحویل میں لے لیا اور بعد ازاں 1874ء میں اسے تحلیل کر دیا گیا۔ لیکن برصغیر پر براہِ راست برطانوی تاج کی حکمرانی سے سامراجی ظلم اور لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ برطانیہ جیسی نوآبادیاتی طاقتوں میں صنعتی انقلابات کے پیچھے نوآبادیات میں کی جانے والی لوٹ مار کا کلیدی کردار تھا۔ اِن مغربی ممالک کی زرق برق، جسے سرمایہ داری کا کارنامہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے، میں ہندوستان جیسے خطوں کے کروڑوں عام انسانوں کا خون شامل ہے۔ انڈیا کی معیشت دان اتسا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی پریس میں شائع ہونے والے اپنے تازہ مضمون میں تخمینہ لگایا ہے کہ آج کے حساب سے ہندوستان سے برطانوی نوآبادکاروں کی لوٹ مار 45 ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ اِس ڈاکہ زنی نے 1770ء اور 1943ء میں بڑے پیمانے کے قحطوں کو جنم دیا جن میں کروڑوں انسان بلک بلک کے مرتے رہے لیکن یہاں سے اناج باہر منتقل کیا جاتا رہا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب برطانوی سامراج زوال پذیر ہوا تو اس کی جگہ امریکہ نے لے لی۔ 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے بنائے گئے۔ ان کا مقصد بین الاقوامی تجارت، مالیاتی امور اور اقتصادی معاملات میں سامراجی ممالک کی اجارہ داری کو برقرار رکھنا اور مربوط کرنا تھا۔ ان ممالک نے عالمی منڈی پر گرفت کے ذریعے شدید تجارتی عدم توازن پیدا کیا اور اور پسماندہ ممالک کی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار حاصل کر لیا۔ غریب ممالک مزید غریب ہوتے چلے گئے۔ ان ممالک کے حکمران طبقات کے مفادات اپنے عوام کی بجائے سامراجی آقاؤں سے وابستہ تھے۔ ان کا کردار سامراجیوں کے معاون کاروں اور کمیشن ایجنٹوں کا تھا۔ وہ اپنے ممالک میں سامراجی کاروباروں کے مقامی منتظم بن گئے۔
’لندن سکول آف اکنامکس‘ کے آنجہانی معیشت دان فریڈ ہالے ڈے نے 1980ء کی دہائی میں یہ اعداد و شمار دیئے کہ سامراجیوں نے براہ راست حکمرانی سے کئی گنا زیادہ دولت ’آزادی‘ کے بعد کے سالوں میں لوٹی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اس کا ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ عالمی منڈی پر سامراجیوں کی طے کردہ قیمتوں پر ہونے والی تجارت میں پاکستان جیسے ممالک کو خسارے اٹھانے پڑ تے ہیں۔ عسکری آلات کی انتہائی مہنگی قیمتوں کی وجہ سے یہ خسارے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ پھر انہیں پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔ یہ قرضے بھاری سود اور تلخ شرائط کے ساتھ آتے ہیں۔ سامراجی اجار ہ داریاں تعمیرات اور دوسرے منصوبوں پر جو سرمایہ کاری کرتی ہیں ان پر ادائیگی کے لئے بھی قرضے درکار ہوتے ہیں۔ ادائیگیاں جب مکمل نہیں ہو پاتیں تو مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یوں ان ممالک کی معیشتیں غلام ہو جاتی ہیں جس سے پھر سیاسی محکومی جنم لیتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان ایسے ممالک ہیں جہاں ارتقا کی طرز انتہائی بے ہنگم اور غیر ہموار ہے۔ پسماندگی کے بیچ ٹکڑیوں میں جدت لانے والی سرمایہ کاری سے یہ سماج مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے ہیں۔ اس عدم استحکام کو سامراجی قوتیں مزید لوٹ مار اور سٹرٹیجک مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
یہ ایسا گھن چکر ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی ملک اس سے نکل نہیں سکتا۔ مروجہ سیاست کی دوسری پارٹیاں بھی کم و بیش انہی پالیسیوں پر کاربند رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کی حکومتوں نے بھی ہر دفعہ انہی اداروں سے قرضے لیے ہیں۔ ہر بار لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ آخری قرضہ ہو گا لیکن یہ سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی گیا ہے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف لگا رہا ہے اور پوری ریاست کو نجکاری کی فہرست پہ رکھ دیا گیا ہے۔
مسئلہ سادہ ہے۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام رہے گا‘ ہر حکومت (چاہے جمہوریت ہو یا آمریت) کو اس کے قوانین کے مطابق چلنا پڑے گا۔ یہ ایک عالمی نظام ہے۔ اس کی بینکاری، تجارت، سرمایہ کاری بین الاقوامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے سامراجیوں سے بیر نہیں لیا جاسکتا۔ اس نظام کے استحصالی و جابرانہ قوانین کو نہ صرف قبول بلکہ لاگو بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی دھن دولت اسی گماشتگی سے مشروط ہے۔ مارے غریب جاتے ہیں۔ منافعوں سے لے کے سود تک کی ادائیگیاں انہی کے خون پسینے سے ہوتی ہیں۔
آج پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت کی جو حالت ہو چکی ہے اس پر شور و غل تو بہت ہے لیکن کوئی حل اس نظام کے ماہرین کے پاس نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے پاکستانی نژاد معیشت دانوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ غریبوں کا معاشی قتل عام ہی کریں گے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سب ایک نظام کی ناکامی اور بربادی کو دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی سائنسی متبادل پیش کرنا جرم بنا دیا گیا ہے۔ بالادست طبقے کی آپسی لڑائی میں ایک دھڑے کے افراد پہ کرپشن کے الزامات لگا کے ان کی بَلی چڑھا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔ اِس کرپٹ نظام میں سب چور اور بدعنوان ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ کرپشن‘ احتساب کے نام پہ کی جاتی ہے۔ ساری معیشت کالے دھن پہ چل رہی ہے۔ یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوشلسٹ انقلاب کے بغیر اسے اکھاڑا بھی نہیں جا سکتا۔ اور اس کا خاتمہ کیے بغیر صدیوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ نہیں سکتیں!