پاکستان

جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں، خدشات اور امکانات

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول ایک مرتبہ پھر جاری تو کر دیا گیا ہے، تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کو رکوانے کیلئے ابھی بھی سرتوڑ کوششیں کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبوں کی جانب سے سکیورٹی کی عدم فراہمی کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کیلئے 30 ہزار اہلکاران پر مشتمل فورس طلب کر رکھی ہے۔

اندرونی ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے سکیورٹی کیلئے فورس مہیا کرنے سے زبانی طور پر معذرت کر لی ہے۔ تاہم ابھی تک تحریری طور پر اس بابت تاحال آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔

انتخابات کا انعقاد اور حلقہ بندیاں

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ آج 24 اکتوبر ہے، جبکہ 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کیلئے ایک ہی وقت میں تمام 10 اضلاع میں پولنگ ہو گی۔

مجموعی طور پر 29 لاکھ 48 ہزار 200 رائے دہندگان حق رائے دہی کا استعمال کرینگے، جن میں 15 لاکھ 64 ہزار 902 مرد اور 13 لاکھ 83 ہزار 102 خواتین شامل ہیں۔

حلقہ بندیوں کے دوران پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 10 اضلاع کو 10 ضلع کونسلوں کیلئے 2080 یونین کونسلوں، 5 میونسپل کارپوریشنوں، 14 میونسپل کمیٹیوں اور 14 ٹاؤن کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دیہی کونسلوں میں 2080 جبکہ مجموعی طور پر 2343 بلدیاتی نمائندگان منتخب ہوکر 31 سال بعد بلدیاتی نظام کو بحال کرنے کی کوشش کرینگے۔

نوجوانوں اور خواتین سمیت ہزاروں کی تعداد میں امیدواران بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، انتخابی مہم اور جوڑ توڑ بھی عروج پر ہے۔

سیاسی جماعتوں کا انتخابات کی طرف رجحان

سیاسی جماعتیں البتہ اس صورتحال میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی قیادتیں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رکوانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ تاہم قوم پرست اور ترقی پسند جماعتیں ایک مرتبہ پھر انتخابات کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں۔

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تمام دھڑوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلے کیا ہے، تاہم کچھ دھڑوں کے مرکزی عہدیداران اور کارکنان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمربستہ ضرور ہیں۔ دوسری طرف ترقی پسند کہلانے والی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کاغذات نامزدگی پر اعتراضات

کاغذات نامزدگی میں ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین رکھنے کا حلف نامہ جمع کروانے کی شرط سے آگے بڑھ کر پاکستانی ریاست کے ساتھ وابستگی، پاکستان اور آزادکشمیر سالمیت اور خودمختاری کے ساتھ وفاداری کا بھی حلف نامہ جمع کروانے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سیکولر حیثیت کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کا مسلمان ہونا اور ختم نبوت پر یقین رکھنے کا حلف جمع کروانا بھی ضروری ہے۔ اسلامی نظریہ پاکستان کی تخلیق کی بنیادی وجہ قرار دیکر اس پر یقین اور وابستگی کا بھی حلف لیا جانا کاغذات نامزدگی میں شامل کیا گیا ہے۔

کاغذات نامزدگی میں شامل کئے جانے والے حلف نامہ کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جمہوری اقدار کے بھی منافی اور فرقہ پروری کی جانب ایک اور قدم قراردیا جا رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی مخالفت

مرکزی دھارے کی سیاسی قیادتیں بلدیاتی انتخابات کو رکوانے کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ سیاسی قیادتوں کا خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے سیاسی جماعتیں کمزور ہونگی۔ آزاد امیدواران کی ایک بڑی تعداد بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہو گی، جو سیاسی جماعتوں کی گراس روٹ لیول پر عوامی حمایت پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دے گی۔

اس کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی نمائندگان ترقیاتی فنڈز کا استعمال کرینگے اور الیکٹیبلز کیلئے سیاست میں اپنی نشستیں برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی میں ممبران اسمبلی ترقیاتی سکیموں کو اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور اپنے حمایت یافتگان کو مضبوط کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔ تاہم اگر بلدیاتی نمائندگان جیت کر آ جاتے ہیں تو پھر ترقیاتی سکیمیں تمام لوکل کونسلوں میں برابری کی بنیاد پر خرچ ہونا شروع ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ممبران اسمبلی کی سپورٹ بیس میں کمی ہونے کا امکان ہے۔

ایک وجہ نئی قیادت کا سامنے آنا بھی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے طاقتور برادریوں، قبیلوں اور کنبوں سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرینگے، جبکہ کئی سیاسی جماعتوں میں مرکزی لیڈرشپ قرار دیئے جانے والے رہنماؤں کی رہنمائی پر سوالات کھڑے ہو جائیں گے۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں سرکاری ملازمین کے سر پرووٹ بینک بنانے کے اصول پر کاربند رہی ہیں۔ نئی قیادتیں سامنے آکر سیاسی جماعتوں اور عام انتخابات کے پرانے طریقوں کو بھی تبدیل کر دیں گی، جس کی وجہ سے پہلے سے موجود ممبران اسمبلی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاحال سیاسی جماعتیں اپنے ٹکٹوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہیں۔ نشانات الاٹ ہونے سے ایک روز قبل تک ٹکٹوں کے اجرا کا فیصلہ موخر کیا گیا ہے۔ اس دوران اول تو انتخابات کا انعقاد رکوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوئم مختلف لوکل کونسلوں میں ٹکٹ کے امیدواروں کے درمیان مفاہمت کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اداروں کے خدشات

بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی اور امیدواران کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور ادارے بھی انتخابات کے انعقاد کو رکوانے کی خاموش حمایت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر، بلیک میلنگ اور دھوکہ دہی سمیت منشیات فروشی اور دیگر جرائم کی معیشت سے جڑے افراد ایسے علاقوں میں ریاست کی طاقت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہی افراد کو سیاسی جماعتوں کی آشیرباد بھی حاصل ہوتی ہے، جن کے ذریعے سے ووٹ بینک کو بھی اپنے حق میں کیا جاتا ہے۔ اہم بلدیاتی انتخابات میں اپنی لوکل کونسل میں ایسے افراد کی جیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ جس وجہ سے سیاست پر ریاست کا کنٹرول خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

اس کے علاوہ قوم پرست اور ترقی پسندسوچ رکھنے والے امیدواران کی بڑی تعداد میں کامیابی بھی ریاستی اداروں کے اپنے بیانیہ کو آگے بڑھانے کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر جیسے پسماندہ خطوں میں مضبوط برادری اور قبیلوں کی حمایت کی بنیاد پر انتہائی سفید پوش اور متوسط گھرانوں کے سیاسی کارکنان بھی انتخابات میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے علاقوں میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس طرح انتخابات میں ترقی پسند کارکنوں کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

یوں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پالیسی سازوں کو بھی اپنے حق میں نہیں لگ رہا ہے۔ تاہم انتخابات کا انعقاد رکوانے کا بوجھ اپنے سر لینے سے بچنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اس نقصان سے بچنے کیلئے خود ہی حکمت عملی بنانے کا کہا گیا ہے۔ البتہ سکیورٹی کیلئے فورسز مہیا نہ کئے جانے کا فیصلہ بظاہر انتخابات کے انعقاد کو موخر یا ملتوی کئے جانے کی جانب ہی ایک اشارہ ہے۔

انتخابات ملتوی ہونے کے امکانات

انتخابات کے انعقاد کے امکانات ابھی بھی بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ آنے والے 4 سے 5 روز اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور الیکشن کمیشن کے عملدرآمد کے بعد سیاسی قیادتوں کے پاس انتخابات رکوانے کیلئے آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس سے قبل قانون ساز اسمبلی میں ایک بل پیش کر کے انتخابات کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دوران عدلیہ اور اسمبلی کے مابین محاذ آرائی کا سلسلہ عروج پر پہنچنے سے قبل ہی باہمی رضامندی سے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دو ماہ آگے کرکے یہ بل واپس لے لیا گیا تھا۔

اس دوران انتخابات کے انعقاد کیلئے فنڈز کے اجرا میں رکاوٹیں بھی ڈالنے کی کوشش کی گئی، دیگر کوششیں بھی کی گئیں۔ تاہم اب سیاسی جماعتوں کیلئے راستہ انتہائی تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ فورسز کی عدم فراہمی کی صورت میں انتخابات کا انعقاد وقتی طور پر تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے، جس کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بعد انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ ہو گا۔

تحریک عدم اعتماد بھی انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے 12 اراکین پر مشتمل فاورڈ بلاک کی جانب سے 3 نام اپوزیشن جماعتوں کو ارسال کئے جانے کا امکان ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نئے وزیر اعظم کیلئے حکمران جماعت کے فاورڈ بلاک کے ان تین ناموں میں سے کسی ایک نام پر متفق ہونے کے فوری بعد تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ تحریک عدم عتماد پیش کئے جانے کی صورت بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ کس طرح سے ڈالی جا سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔