پاکستان

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلاول بھٹو کے یوتھیاپے

فاروق سلہریا

بلاول بھٹو نہ صرف جہالت میں عمران خانی سکے کا دوسرا رخ ہیں بلکہ منافقت میں بھی عمران خان سے کم نہیں۔ شائستگی کا فرق ضرور ہے۔ اس لئے گالم گلوچ کی بجائے الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جب انہیں لانچ کیا گیا تو بی بی سی ورلڈ سروس پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا گیا۔ ان دنوں مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ جب بی بی سی کے نامہ نگار نے ان سے سندھ حکومت کی بری کارکردگی بارے سوال کیا توچیف جیالے کا یوتھیانا جواب تھا: میں پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین ہوں، سندھ میں پی پی پی پارلیمینٹیرینز کی حکومت ہے۔

بی بی سی وغیرہ پر اس طرح کے انٹرویو لابنگ کا نتیجہ نہ بھی ہوں، اکثر نامہ نگاروں کا تیسری دنیا بارے علم واجبی سے بھی کم ہوتا ہے۔ نامہ نگار کو پوچھنا چاہئے تھا کہ دونوں میں فرق کیا ہے اور اگر پی پی پی پارلیمینٹیرینز کوئی علیحدہ جماعت ہے تو بطور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے چیئرمین بلاول کا سندھ حکومت بارے کیا موقف،تجزیہ یا رائے ہے۔ خیر۔

گذشتہ ویک اینڈ پر بلاول بھٹو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مدعو تھے۔ کانفرنس کا ریڈیکل ماحول دیکھ کر وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے ’انقلابی‘ بن گئے۔ کہا: اگر عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتیں اور پوچھتیں کہ بلاول آپ ڈینجرس اور ڈفرز کے ساتھ سمجھوتہ کر کے وزیر خارجہ تو نہیں بنے اور میرا جواب نفی میں ہوتا۔

کانفرنس میں بہت سے نوجوان ایسے بھی تھے جو سچ مچ میں ریڈیکل ہیں۔ انہوں نے بلاول کی تقریر کے دوران علی وزیر کی رہائی کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ بلاول کا ان نوجوانوں کو جواب تھا: یہ نعرے ان کے سامنے لگائیں جنہوں نے علی وزیر کو گرفتار کیا ہے۔

چند منٹ کے وقفے سے ایسا یو ٹرن تو شائد کبھی عمران خان نے بھی نہ لیا ہو۔ عمران خان بھی چند دن کے وقفے کے بعد پینترا بدلتے ہیں۔ کوئی جیالا اپنے تاحیات چیئرمین کو بتائے کہ بھائی اگر ڈفرز کے ساتھ ڈیل کر کے نہیں آئے تو کم از کم اسمبلی اجلاس کے دوران ہی علی وزیر کو بلا لیا ہوتا۔ اسمبلی کا تو اسپیکر بھی پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز سے تعلق رکھتا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ مذکورہ بالا انٹرویو کی روشنی میں ویسے ایک سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ بلاول بھٹو نے پی پی پی پارلیمینٹیرینز میں شمولیت کب اختیار کی؟

سچ تو یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اُس ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے جسے عمران خان سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی فرق ہے تو شائد یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنے ذاتی مفادات کے لئے کچھ چوں چرا کرتے تھے، شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے منہ سے تو اُف اللہ بھی نہیں نکل رہا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔