پاکستان

معیشت آئی ایم ایف کے حوالے: آگے کیا ہو گا؟

عمران کامیانہ

باقر رضا کی گورنر سٹیٹ بینک کے طور پہ تقرری سے ملکی معیشت باضابطہ طور پہ آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے۔ یہاں سامراجی مالیاتی اداروں کے نامزد کردہ وزرائے خزانہ لگانے کی طویل تاریخ رہی ہے۔ حتیٰ کہ ان اداروں کے منظورِ نظر افراد کو بطور وزرائے اعظم باقاعدہ ’درآمد‘کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ بھی آئی ایم ایف کا بندہ ہے جو عملاً ملک کا وزیر خزانہ ہے اور سیدھی بات کی جائے تو وزیر اعظم سے زیادہ اختیارات کا مالک ہے۔ لیکن یہ شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایک حاضر سروس ملازم کو خصوصی طور پہ باہر سے منگوا کے سٹیٹ بینک کا گورنر لگا دیا گیا ہے۔ یعنی کرنسی نوٹ، جو چھاپنے کا اختیار کسی ریاست کا سب سے کلیدی حق تصور کیا جاتا ہے، اب آئی ایم ایف کے ایک ملازم کے دستخطوں سے قانونی سند حاصل کریں گے۔

ہم نے اپنی پچھلی تحریر میں پاکستان کے داخلی خسارے اور اندرونی قرضوں کی موجودہ صورتحال، وجوہات اور مضمرات بیان کیے تھے۔ اِس تحریر میں ہم مختصراً ملک کے بیرونی خسارے اور قرضوں پر بات کریں گے۔

بیرونی قرضے کیا ہیں؟

بیرونی قرضے سے مراد وہ قرضے ہیں جو ملک سے باہر بینکوں، اداروں یا حکومتوں کو واجب الادا ہوتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکی ڈالر چونکہ عالمی کرنسی کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا بین الاقوامی سطح پہ تجارت بھی ڈالروں میں ہوتی ہے اور قرضے بھی ڈالروں میں ہی ادا کرنے ہوتے ہیں (کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ)۔
داخلی خسارے کے مسئلے کو ٹالنے یا مہنگائی وغیرہ کے ذریعے عوام پر منتقل کرنے کے لئے سٹیٹ بینک روپے تو چھاپ سکتا ہے لیکن بیرونی قرضوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ڈالر چھاپنے کا اختیار صرف امریکہ کے پاس ہے۔ یعنی ڈالر صرف برآمدات، باہر سے آنی والی سرمایہ کاری (FDI) اور عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں سے قرض یا امداد وغیرہ کی شکل میں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ اِس وقت 100 ارب ڈالر کی تشویشناک سطح کو چھو رہا ہے جس پر ہر سال سود کی ادائیگیوں کے لئے خطیر رقم درکار ہے۔ جس کا جائزہ ہم آگے اِس مضمون میں لیں گے۔

بیرونی قرضوں کا گراف (ملین میں)

وجوہات کیا ہیں؟

جیسے بجٹ خسارے سے داخلی قرضے جنم لیتے ہیں اسی طرح بیرونی قرضے کی بنیادی وجہ تجارتی خسارہ ہوتا ہے۔ تجارتی خسارے سے مراد درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہونا۔

پچھلے مالی سال کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 37.7 ارب ڈالر رہا ہے جو اُس سے پچھلے مالی سال سے 16 فیصد زیادہ تھا۔ 2008ء کے بعد تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آتا ہے جو گزشتہ کچھ سالوں سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً 2014ء میں یہ خسارہ 20 ارب ڈالر، 2015ء میں 22.2 ارب ڈالر، 2016ء میں 23.9 ارب ڈالر، 2017ء میں 32.5 ارب ڈالر اور پھر 2018ء میں 37.7 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔

اس تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ تکنیکی پسماندگی اور بجلی کی زیادہ قیمتوں جیسے عوامل کی وجہ سے یہاں پیدا ہونے والی زرعی و صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں چین جیسے ممالک کی سستی اجناس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کے لحاظ سے پاکستان کُل 137 ممالک کی فہرست میں 115 ویں نمبر پر آتا ہے۔

باقی دنیا کی طرح چین کی سستی اجناس کی یہاں کی مقامی منڈی پر یلغار سے مقامی صنعت بیٹھ رہی ہے اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سی پیک کی شروعات کے بعد سے بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد سے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں چین کیساتھ تجارت کا خسارہ 2.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.66 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔

ملکی جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ صرف 7.6 فیصد ہے۔ یہ شرح درمیانی آمدن والے ممالک کی اوسط سے بھی 17 فیصد کم ہے۔

تجارتی خسارے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ بنیادی طور پہ تین مدوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

1: تجارتی توازن یعنی درآمدات و برآمدات کی مالیت میں فرق۔
2: سرمایہ کاری پر آمدن (منافع، سود وغیرہ) کی مد میں ملک میں آنے یا جانے والا پیسہ۔ بیرونِ ملک محنت کشوں کے ترسیلاتِ زر کو بھی اس مد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
3: قرضے یا امداد وغیرہ

دیوہیکل تجارتی خسارے کے بعد پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ کو جو تھوڑا بہت سہارا ملتا ہے وہ دوسری مد سے ہے۔ بیرونِ ملک پاکستان کی سب سے بڑی سرمایہ کاری محنت کی منڈی میں ہے۔ یعنی دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے محنت کش۔ جن کے ترسیلاتِ زر سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کچھ کم ہوتا ہے۔ یہ ترسیلات پچھلے مالی سال میں معمولی اضافے کیساتھ 19.6 ارب ڈالر رہے ہیں اور پچھلے پانچ سال سے تقریباً اسی سطح پر کھڑے ہیں۔ یعنی یہ اتنی رقم نہیں ہے (نہ ہو سکتی ہے) کہ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ حل ہو سکے۔

برآمدات میں اضافے کی ایک انتہائی بھونڈی اور عوام دشمن کوشش میں موجودہ حکومت نے روپے کی قدر میں تاریخی کمی کی ہے۔ پچھلے 15 ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی کی گئی ہے اور ابھی آئی ایم ایف کے حکم پر مزید کمی متوقع ہے۔ جس سے مسلسل بڑھتی مہنگائی نے غریبوں کا جینا اور بھی دوبھر کر دیا ہے۔ لیکن برآمدات میں صرف 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران، جب سے یہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، برآمدات میں ہونے والا اضافہ 0.11 فیصد ہے!

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ مالی سال کے دوران تقریباً 18 ارب ڈالر رہا ہے جو اُس سے پچھلے مالی سال سے 44.7 فیصد زیادہ ہے۔ اب اِس میں کمی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ کمی مزید قرضے لینے اور درآمدات کو مہنگا کرنے جیسے مصنوعی طریقوں سے کی جا رہی ہے جو ایک مسئلے کو حل کرنے کے لئے کئی نئے مسئلے کھڑے کرنے کے مترادف ہے۔

کرنٹ اکائونٹ خسارہ سال بہ سال


سال در سال چلنے والا یہ خسارہ ادائیگیوں کے توازن کے مسلسل بگڑتے جانے کی کلیدی وجہ ہے۔ اسے پورا کرنے کے لئے باہر سے قرضے لینے پڑتے ہیں اور داخلی قرضوں کی طرح یہ بیرونی قرضے بھی اب اِس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ ان کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے درکار ہیں۔ جس کے لئے موجودہ حکومت نے پہلے چین، سعودی عرب اور متحدہ امارات کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اب سارا ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جا رہا ہے۔

خوفناک اعداد و شمار

آئی ایم ایف نے اپنے تازہ اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ اگلے دو سالوں میں پاکستان کو 27 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنا ہوں گے۔ اِس عرصے کے دوران یہ پورے خطے میں سب سے زیادہ واجب الادا رقم ہے۔

لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔ قرضوں کی واپسی کے علاوہ اگلے دو سالوں کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اپنی جگہ پہ بدستور موجود ہے۔ جسے پورا کرنے کے لئے تقریباً 20 ارب ڈالر مزید درکار ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کے سابقہ گورنر شاہد کاردار کے مطابق مجموعی طور پہ ’بیرونی فنانسنگ‘کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کم از کم 50 ارب ڈالر اگلے دو سالوں میں درکار ہوں گے۔ جبکہ اِس دوران زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف تین ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہونے کی سطح پہ رہیں گے۔

معیشت سے سطحی واقفیت رکھنے والا شخص بھی بتا سکتا ہے کہ پہلے سے معاشی بحران میں گھرا ملک مزید کتنے گہرے بحران میں داخل ہونے جا رہا ہے۔
مجموعی قرضے ملکی جی ڈی پی کے 80 فیصد کو چھو رہے ہیں۔ یہ ایک دیوہیکل بوجھ ہے جس کے تلے ساری معیشت کا دم گھٹ رہا ہے۔

آئی ایم ایف ڈیل کے مضمرات کیا ہوں گے؟

سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہم نے اُن کے حکم سے پہلے ہی پوری کر دی ہیں۔ یہ اِس ملک کے حکمران طبقات اور سرکاری اشرافیہ کی تاریخی کاسہ لیسی کا حال ہے۔ اس عرصے کے دوران افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن آئی ایم ایف کی بہت سی شرائط ابھی پوری ہونی باقی ہیں!

اگلے کچھ دنوں میں آئی ایم ایف سے ڈیل طے ہونے امکانات ہیں جس کے تحت 6.5 ارب ڈالر کا ’پیکیج‘ اگلے تین سالوں کے دوران ملے گا۔ لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہونے والے دو طرفہ مذاکرات میں آئی ایم ایف نے بہت سخت شرائط سامنے رکھی ہیں جنہیں رد کرنے کی آپشن اِس کٹھ پتلی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ مثلاً بجلی کی قیمت میں مزید 25 فیصد اضافے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ یہ بتدریج اضافہ ہو گا جس کا آغاز یکم جولائی سے ہونے کا امکان ہے اور اگلے ڈیڑھ سال تک بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں گی۔ گیس کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کیا جائے گا۔ مجموعی طور پہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پہ 340 ارب روپے کا بوجھ اگلے تین سالوں میں پڑے گا۔ ساتھ ہی ’نیپرا‘ اور ’اوگرا‘ کو ”خودمختیار“ ادارے بنایا جا رہا ہے تاکہ قیمتوں میں من چاہا اضافہ کسی بھی وقت کیا جا سکے اور حکومت اس سے بری الذمہ بھی ہو جائے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی وجہ سے نہیں ہے(جیسا کہ سرکاری طور پہ کہا جا رہا ہے)۔ بلکہ اِس کی وجہ اضافی ٹیکس ہیں جن کے ذریعے حکومت صرف مئی کے مہینے میں 55 ارب روپے عوام سے نچوڑ کے سود خوروں کی جھولی میں ڈالے گی۔ ایک لیٹر تیل پر تقریباً 40 روپے تک کا ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اضافے کا عمل جاری رہے گا۔

روپے کی قدر میں مزید کمی متوقع ہے۔ ڈالر کی قیمت 150 روپے سے اوپر جا سکتی ہے۔ شرح سود، جو پہلے ہی 10.75 فیصد تک پہنچا دی گئی ہے، 14 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔ ان اقدامات سے بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہی ہو گا۔

آنے والے بجٹ میں مجموعی طور پہ 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جس سے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ جاری مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں ایف بی آر کا شارٹ فال ریکارڈ 348 روپے کو پہنچ چکا ہے۔ یہ سارا پیسہ بالواسطہ ٹیکس لگا کے عام لوگوں کی جیب سے نکلوایا جائے گا۔

آئی ایم ایف کی ایما پہ بدترین نجکاری کا عمل بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ سٹیل مل کو دوبارہ نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔ تعلیم و علاج کے شعبے سمیت کم و بیش ہر سرکاری ادارے کو بیچنے کی تیاری ہے۔

آئی ایم ایف کا پروگرام عوام کی مزید بربادی اور تباہ حالی کا نسخہ ہے۔ یہ آگ کو پٹرول سے بجھانے کے مترادف ہے۔اِس سامراجی ادارے نے دنیا میں جہاں بھی اپنے پروگرام نافذ کیے ہیں وہاں مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور طبقاتی تفریق میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اب یہ پاکستانی معیشت کی ’شاک تھراپی‘ کرنے جا رہے ہیں جس سے سماجی انتشار بڑھے گا۔ جہاں ہر آنے والی حکومت اپنے سے پہلی والی کو الزام دیتی ہو وہاں مسئلہ نظام کا ہوتا ہے۔ یہ حکمران طبقات کی معیشت ہے جس میں بہتری کے ثمرات یہ خود سمیٹتے ہیں اور خساروں کا بوجھ محنت کشوں پہ ڈالا جا تا ہے۔ محنت کش طبقہ اسے اپنے جمہوری کنٹرول میں لے کے ہی اپنے مفادات کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔