خبریں/تبصرے

وانا: شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد کا دہشت گردی کیخلاف دھرنا جاری

لاہور (جدوجہد رپورٹ) سابق فاٹا کے علاقے جنوبی وزیرستان کے شہر وانا میں امن کی بحالی کیلئے اور دہشت گردی ختم کرنے کے مطالبہ کے گرد احتجاجی دھرنا گزشتہ 7 روز سے جاری ہے۔ اس احتجاجی دھرنا میں ہزاروں افراد شریک ہیں، جو امن کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں امن قائم کیا جائے اور ایک ماہ قبل اغوا کئے جانے والے تاجر جمشید وزیر کو بازیاب کروایا جائے۔ تاہم تاحال صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت سکیورٹی ادارے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر سکے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔

یہ احتجاجی دھرنا گزشتہ چند ماہ سے سوات سمیت خیبرپختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز کے بعد شروع ہونے والی تحریک اولسی پاسون (عوامی بیداری) کا ہی تسلسل ہے۔ جنوبی وزیرستان میں مقامی سیاسی قائدین اور مختلف تنظیموں کے لوگوں پر مشتمل 11 رکنی کمیٹی اس احتجاجی دھرنے کی نمائندگی کر رہی ہے۔

’بی بی سی‘ کے مطابق منگل سے وانا شہر سے ہر قسم کی ٹریفک کا سلسلہ بند کر دیا گیا تھااور اعلان کیا گیا ہے کہ جب تک مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔ انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں تاحال کوئی کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔

احتجاجی دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ علاقے سے مسلح جتھوں کا خاتمہ کیا جائے، پولیس کو آئین و قانون کے تحت اختیارات، سہولیات اور تر بیت فراہم کی جائے، ضرورت پڑنے پر فوج اور ایف سی کو طلب کیا جائے، انگور اڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹیں ختم کی جائیں، پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو آمدورفت کی اجازت دی جائے، مطلوب افراد کی گرفتاری کیلئے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، کالے شیشے والی سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ امن کمیٹیوں، قومی لشکر یا 2007ء کے معاہدے جیسے انتظامات کا کاتمہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ سے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں سے کاروباری حضرات کی خاندانوں سمیت ہجرت کے واقعات سامنے آرہے ہیں، یہ سارے واقعات کالعدم تنظیموں کی جانب سے بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے سلسلے کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ صوبائی ممبران اسمبلی اور وزرا سے بھی بھتہ لئے جانے کے انکشافات ہوئے ہیں۔ مقامی شہری مسلح افراد کی سرگرمیوں میں اضافے کی شکایات کر رہے ہیں۔

’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران لکی مروت اور دوسرے علاقوں میں پولیس پر دہشت گردانہ حملے ہوئے، جبکہ سابق قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج پر بھی ایسے حملے ہوئے ہیں۔

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں مجموعی طور پر 262 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں 419 افراد ہلاک اور 734 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں سے 79 حملوں کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پینے قبول کی۔ مجموعی طور پر دہشت گردانہ حملوں میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts